اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 24 نومبر کے احتجاج کے بعد گرفتار کیے گئے 40 مظاہرین کا مزید جسمانی ریمانڈ دینے کی پولیس کی استدعا مسترد کرتے ہوئے تمام ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
قومی اسمبلی میں “ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024” پیش کرنے کا فیصلہ
کیس کی تفصیلات
ملزمان کو تھانہ شمس کالونی پولیس نے عدالت میں پیش کیا، جہاں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے کیس کی سماعت کی۔
وکیل دفاع کے دلائل
ملزمان کے وکیل انصر کیانی نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل دیے کہ تمام گرفتار افراد مزدور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں ان کے گھروں سے اٹھایا گیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ کئی گرفتاریاں ان مقامات سے کی گئیں جہاں احتجاج کا انعقاد نہیں ہوا تھا، اور ان دعووں کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔
پولیس اور وکیل کا موقف
پولیس نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ مزید تفتیش کے لیے ملزمان کا ریمانڈ ضروری ہے۔ تاہم، عدالت نے پولیس کی درخواست مسترد کردی۔
واقعے کا پس منظر
24 نومبر کو پی ٹی آئی نے پشاور سے اسلام آباد تک احتجاجی مارچ نکالا، جس کے دوران مظاہرین کی سیکیورٹی پر تعینات اہلکاروں سے جھڑپیں ہوئیں۔ اس واقعے میں دو پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں نے فورسز پر براہ راست فائرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کئی کارکنوں کی اموات کا دعویٰ کیا، لیکن اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔
پولیس کارروائی
پولیس نے مارچ کے دوران متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف مختلف مقدمات درج کیے۔ گرفتار افراد کو عدالتوں میں پیش کرکے قانونی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
جج کا حکم
عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے تمام گرفتار مظاہرین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔