کراچی مصطفیٰ عامر اغواء اور قتل کیس میں مقتول کی والدہ وجیہہ عامر کا اہم بیان سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے مصطفیٰ کے قتل کو ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا واقعہ قرار دیا ہے۔
قائد آباد پولیس کی کامیاب کارروائی، اسٹریٹ کرائم میں ملوث چھوٹو گینگ کا کارندہ اسلحہ
وجیہہ عامر نے دعویٰ کیا کہ "ایک بچے کو قتل کرنے کے بعد کالی شیشوں والی بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی ڈیفنس سے نکلتی ہے اور بلوچستان کے علاقے دریجی میں جا کر مصطفیٰ کو جلا دیا جاتا ہے، مگر کسی کو گاڑی جلنے اور دھماکوں کی آوازیں کیوں نہیں آئیں؟”
والدہ نے مزید سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ "دونوں ملزمان پیدل چل کر کراچی کیسے پہنچ گئے؟” اور یہ کہ مصطفیٰ کے قتل میں دیگر افراد بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن ساؤتھ علی حسن پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ "بیس دن تک علی حسن میرے بیٹے کی کردار کشی کرتا رہا، میں اس پر مقدمہ درج کراؤں گی۔ وہ کس کے انڈر کام کر رہا تھا اور ہماری بات کیوں نہیں سن رہا تھا؟
والدہ نے مزید کہا کہ "جب میرا بچہ غائب تھا تو اسے تلاش کیوں نہیں کیا گیا؟ مصطفیٰ کے قتل میں ملزم ارمغان کے ساتھ ایس ایس پی علی حسن کا بھی نام آنا چاہیے، اور علی حسن کو فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے۔
وجیہہ عامر نے اعتراف کیا کہ ان کے بیٹے کی غلطی یہ تھی کہ اس نے گاڑی پر نمبر پلیٹ نہیں لگائی، لیکن وہ ہمیشہ مکینک کے پاس جانے سے پہلے نمبر پلیٹ لگا کر نکلتا تھا۔
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ "دونوں درندوں، ارمغان اور شیراز کے ساتھ کوئی اور بھی شامل ہے۔
والدہ نے اے وی سی سی، سی آئی اے اور سی پی ایل سی حکام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ "ان اداروں نے میرے بچے کے کیس کو حل کیا، جبکہ علاقائی اور تفتیشی پولیس پچیس دن تک کچھ نہ کر سکی۔