تحریر: سعید آرئیں
ملک کے لیے ٹیکسز وصول کرانے والے ادارے ایف بی آر سمیت تمام سرکاری اداروں میں کرپشن کوئی نئی بات نہیں جس کے خاتمے کے حکومتی اقدامات نمائشی ثابت ہوئے کیونکہ ایسے اقدامات کرنے والی حکومتیں حقیقی طور پر خود نہیں چاہتیں کہ کرپشن کا خاتمہ ہوا کہ اس سے حکومتی شخصیات خود متاثر ہوں گی کیونکہ ان حکومتی شخصیات میں صنعتکار، جاگیردار، فیکٹریاں چلانے والے اور بڑے کاروباری شامل ہیں جو افسروں کی ملی بھگت سے خود ٹیکسز بچاتے ہیں جس سے ایف بی آر کو شدید مالی نقصان اور کرپٹ افسران کو مالی فوائد ہو رہے ہیں اور سارا ہی نقصان عوام کا ہو رہا ہے اور ٹیکس بچانے والے ہی عوام پر الزامات لگاتے ہیں کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے جب کہ وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جو عوام کو ٹیکس کے بغیر مل رہی ہے۔
کرپشن، من مانیاں اور بے بس عوام
حکومت نے ٹیکس وصولی کے سلسلے میں بزرگ پنشنرز اور بینکوں میں غیر سودی سرمایہ کاری کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا جو شرعی طور پر بینکوں میں جمع اپنی رقم پر منافع حاصل کرتے ہیں ان سے بھی ہولڈنگ ٹیکس کے نام پر شرعی طور پر حاصل کردہ منافع پر بھی پندرہ فیصد ٹیکس کٹوتی کی جا رہی ہے۔
عدالتوں میں زیر التوا مقدمات بلند ترین سطح پر اسی لیے پہنچا دیے گئے ہیں کہ کرپٹ افسروں کو عدالتی کارروائی سے بچایا جائے اور سیاسی مفادات کے لیے ایک سیاسی پارٹی نے عدالتوں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور وہ ہر معاملے میں ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرنا اپنا وتیرہ بنا چکی ہے اور لاکھوں ایسے مقدمات ہیں جو عدالتوں میں بلاوجہ بوجھ بنے ہوئے ہیں اور ان کے وکلا بھی نہیں چاہتے کہ عدالتوں سے یہ بوجھ کم ہو کیونکہ مقدمات کے زیرالتوا رہنے ہی سے ان کا کاروبار چل رہا ہے اور عوام کی جائز مقدمات میں بھی جلد شنوائی نہیں ہوتی۔ جائز مقدمات کی شنوائی کا جلد نمبر نہیں آتا اور عدالتوں میں سیاسی مقدمات بلا تاخیر سماعت کے لیے مقرر کر دیے جاتے ہیں۔
ایسی درخواستوں کے ذریعے عدالتی وقت کا ضیاع ہو رہا ہے اور نقصان عوام کا ہو رہا ہے۔ایکسپریس ٹریبیون کی ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے وزیر اعظم پاکستان کے آفس افسروں کو چار اضافی تنخواہیں دینے کے لیے 24 ارب کی ضمنی گرانٹ پر اپنے اعتراضات کیے ہیں مگر حکومت یہ فیصلہ واپس لینے کے موڈ میں نہیں اور وہ اپنے فیصلے کو برقرار رکھ کر پرائم منسٹر آفس کے افسروں کو چوبیس ارب روپے کی اضافی تنخواہ دینا چاہتی ہے۔ حکومت سے اگر عوام کو ریلیف دینے کا مطالبہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث کوئی ریلیف عوام کو دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
حکومت اپنے من مانے فیصلوں کے مطابق لاکھوں روپے تنخواہ اور تنخواہ سے زیادہ سرکاری مراعات لینے والے ان افسروں کو چار اضافی تنخواہیں دینے میں تو عار محسوس نہیں کرتی مگر عوام کو ریلیف دینے کا کہا جائے تو آئی ایم ایف کی آڑ لی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف نے بعض معاملات میں عوام کو سہولت نہ دینے پر تشویش ظاہر کی تو حکومت کو عوام کا خیال نہیں آیا۔ عوام کے لیے بجلی و گیس کے نرخ مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں اور حکومت سرکاری افسروں کو سالوں سے دی جانے والی سرکاری مراعات ختم تو کیا کم کرنے پر بھی تیار نہیں ہے اور نہ ہی حکومت اپنے اخراجات کم کرنا چاہتی ہے بلکہ حکومتی اخراجات مسلسل خود ہی بڑھائے جا رہے ہیں۔
وزیروں مشیروں کے لیے نئی اور مہنگی گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دیتے وقت کسی کو عوام کا خیال نہیں آتا۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ سرکاری خزانے میں سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور حکومتی اخراجات اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لینا پڑتا ہے۔
حکمرانوں کے بقول حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف کا ہر مطالبہ ماننا پڑتا ہے ایڑیاں رگڑنی اور خوشامد کرنا پڑتی ہے تب کہیں جا کر مشکل سے مزید قرض ملتا ہے۔حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر جگہ جھولی پھیلا کر قرضے لے لیتی ہے اور عوام پر قرضوں کا بوجھ بڑھا دیتی ہے تو اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کیونکہ یہ قرض حکومتی اور سرکاری افسروں نے نہیں عوام نے مہنگائی برداشت کرکے دینا پڑتا ہے۔
حکومتی من مانیاں عوام کے مجموعی مفاد کے لیے نہیں کی جاتیں بلکہ اپنے سیاسی مفاد اور اپنوں کو نوازنے کے لیے کی جاتی ہیں اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ حکومتی من مانیوں سے حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ سرکاری خزانہ پہلے ہی خالی اور متاثر ہے اور من مانیوں سے سرکاری اخراجات بڑھا کر خزانے پر مزید بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے۔