ماضی کے جھروکے ۔۔۔پاکستان کے نامور ٹی وی اینکر

دھیما مگر پراثرانداز ۔۔۔درست تلفظ اور ادائیگی ۔۔۔ انداز ایسا کہ ناظرین کی نظریں ٹی وی اسکرین پر جم جائیں ۔۔۔ یہ ذکر ہے ماضی میں پاکستان کے ان نامور ٹی وی اینکرز اور صحافیوں کا جو ناظرین کے دلوں پر راج کرتے رہے۔۔ان نامی گرامی شخصیات نے صحافت کے دور میں اس وقت توجہ حاصل کی جب پاکستان میں ٹی وی عام نہیں تھا لیکن ان کے انداز اور دلچسپ لہجے نے سب کی توجہ حاصل کی ۔ دوستو ۔۔۔۔۔۔ ایسے ایک نہیں کئی نام ہیں جو اب بھی لوگوں
کے ذہن سے محو نہیں ہوسکے سب سے پہلے اس دور کا ذکر ہوجائے

اسی کی دہائی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو وہ وقت یاد ہوگا جب نو بجے کے ٹائم بچوں کو مائيں یا تو کھانا کھلا کر سلا دیتی تھیں یا پھر ان کو خاموشی کا حکم نامہ مل جاتا تھا کیوں کہ ابو نے خبرنامہ سننا ہوتا تھا۔ پورے نو بجتے ہی گھر میں خاموشی چھا جاتی تھی نو بجتے ہی گھڑی دکھائی جاتی اور اس کے بعد اپنی بارعب آواز کے ساتھ اظہر لودھی یا خالد حمید ماہ پارہ صفدر یا ثریا شہاب کے ساتھ اسکرین پر شیروانی پہنے نظر آتے ان کے ساتھ خاتون میزبان نے ہلکے رنگ کے کپڑے پہنے ہلکے میک اپ کے ساتھ دکھائی دیتی تھیں۔

ان ہی میں سے ایک ہیں شائستہ زید ۔۔ ایک قابل تقلید اور مثالی شخصیت ۔۔1969 میں بطور انگریزی نیوز کاسٹر پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ ہونے والی شائستہ زید 4 دہائی تک انگریزی خبروں سے وابستہ رہیں اور 21 جولائی 2012ء کو آخری انگریز بلیٹن پڑھنے کے بعد پی ٹی وی سے ریٹائر ہوئیں، حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 1988ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔شائستہ زید نے اپنی خوش لباسی، دیدہ زیب شخصیت اوربہترین و منفرد انگریزی تلفظ کے ساتھ لاکھوں ٹی وی ناظرین کے دل میں گھر کیا ہوا تھا۔۔۔ان کا مدھر صوتی آہنگ کے ساتھ خبریں پڑھنے کا انداز انتہائی دیدہ زیب ۔۔باوقار اور دلنشین تھا۔آج کے 50,55 برس کے پاکستانی ٹی وی ناظرین ان کی خبریں پڑھنے کے انداز کو یقیناً نہیں بھولے ہوں گے۔قائد اعظم کی انگریزی تقریر کی طرح شائستہ زید کی انگریزی خبریں وہ لوگ بھی سنتے تھے جو انگریزی سے نابلد ہوتے تھے۔۔۔اور یہ حقیقت ہی ان کے فن کی عظمت کے لئے ایک عظیم خراج تحسین ہے۔

مہ پارہ صفدر 1975ء میں لاہور ٹیلی وژن پر نیوز کاسٹنگ کے شعبہ میں آئیں ۔۔۔پی ٹی وی کا خبرنامہ ان کی ملک گیر سطح پر پہچان کا باعث بنا۔ اگست 1979ء میں ان کی شادی صفدر ہمدانی سے ہوئی ۔مہ پارہ 1990ء تک پی ٹی وی سے منسلک رہیں۔ جنوری 1990ء میں وہ بیرونِ ملک چلی گئیں۔ لندن میں بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک ہوئیں اور 2014ء تک مستقل ملازمت کے بعد اب جزوی طور پر بی بی سی سے منسلک ہیں۔

اظہر لودھی کو پاکستان کا سب سے پہلا میزبان اور نیوز کاسٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ان کی خاص شہرت سابق صدر ضياالحق صاحب کی تدفین کی ٹرانسمیشن کی میزبانی کرنے کے بعد سے ٹی وی سے جدا کر دیا گیا تھا وہ اس وقت بھی پاکستان میں رہائش پزیر ہیں-

خالد حمید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ریڈيو پاکستان میں بہت کام کیا جس کے سبب انہوں نے اپنے الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ پر بہت کام کیا اس وقت واشنگٹن میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور اب بھی اپنے دور کو یاد کرتے ہوئے اس وقت کو بہترین ترین قرار دیتے ہیں۔ خالد حمید اب بھی بی بی سی سے وابستہ ہیں اور بی بی سی میں اردو خبریں پڑھتے نظر آتے ہیں۔

ثریا شہاب نے ٹیلی وژن میں اپنے کیرئير کا آغاز بطور نیوز کاسٹر 1973 شروع کیا مگر اس سے قبل دس سال تک ایران کے ریڈيو زيدان میں نوجوانوں کے ایک پروگرام کی میزبانی کر کے کافی شہرت حاصل کر چکی تھیں۔ بطور نیوزکاسٹر ان کی شہرت اس حد تک تھی کہ ان کی آواز کو عوام کی دلوں کی آواز قرار دیا جاتا تھا۔ جس کے بعد 1984 میں بی بی سی کو جوائن کر کے لندن شفٹ ہو گئيں اور ان کی آواز کا تعلق پاکستان کی آواز سے ٹوٹ گیا ان کا انتقال دسمبر 2019 کو اسلام آباد میں ہو گیا تھا

کراچی ٹی وی سے خبریں پڑھنے والے زبیر احمد اس وقت کینیڈا میں وہاں کے ایک اردو چینل کے لیے خبریں پڑھتے ہیں۔ مگر پاکستان ٹیلی وژن سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا ہے ان کو خاص طور پر کراچی کی علاقائی خبریں پڑھنے کی ذمہ داری دی جاتی تھی

سادہ لباس سر پر دوپٹہ مگر ناک میں ہیرے کی لونگ عشرت فاطمہ کی پہچان ہوتی تھی جن کو اکثر اوقات خواتین ان کی لونگ کے لیے خاص طور پر دیکھتی تھیں جچے تلے انداز میں ان کی دھیمے دھیمے انداز میں خبریں پڑھنے کا انداز اتنا موثر ہوتا کہ انہوں نے ماہ پارہ صفدر اور ثریا شہاب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا

 

 

یہ تمام نیوز کاسٹر ثریا شہاب کے علاوہ سب ماشا اللہ بقید حیات ہیں۔ یہ تمام لوگ ملک کا وہ سرمایہ ہیں جن سے آج کے دور میں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ آج کے نیوز چینل پر خبریں پڑھنے والے اس سے سبق سیکھ سکیں اور تیز میک اپ اور خوبصورتی کے بجائے ان کے لہجے پر توجہ دیں تاکہ خبروں کا وقار دوبارہ سے بحال ہو سکے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!