جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول جمعرات کے روز بھی اقتدار میں ہیں اور ان کی جماعت نے اعلان کیا ہے کہ وہ مواخذے کی تحریک کی متحد ہوکر مخالفت گی، یون کے مارشل لا کے نفاذ نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔
کرسٹیانو رونالڈو اسلام قبول کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، النصر کے سابق گول کیپر کا انکشاف
صدر کے مواخذے کی تحریک پر ووٹنگ ہفتے کی شام 7 بجے ہوگی۔
جنوبی کوریا کی پولیس نے بھی جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وہ یون کے خلاف ’بغاوت‘ کے الزام میں تحقیقات کر رہی ہے جو کہ ایک ایسا جرم ہے جو صدارتی استثنیٰ سے تجاوز کرتا ہے اور اس میں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے منگل کی رات دیر گئے سویلین حکمرانی کو معطل کر دیا تھا اور پارلیمنٹ میں فوج اور ہیلی کاپٹر تعینات کیے تھے تاکہ قانون ساز اس اقدام کو مسترد کر کے احتجاج اور ’ڈرامائی رات‘ میں انہیں یو ٹرن لینے پر مجبور نہ کر سکیں۔ سیئول کے اتحادیوں کو اس بات کا علم ٹیلی ویژن کے ذریعے ہوا اور حزب اختلاف نے فوری طور پر مواخذے کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ صدر یون نے آئین اور قانون کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔
300 رکنی مقننہ میں حزب اختلاف کو بھاری اکثریت حاصل ہے اور مواخذے کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے یون کی پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) سے اسے صرف مٹھی بھر ارکان کی ضرورت ہے۔
تاہم جمعرات کو پیپلز پاور پارٹی کے رہنما ہان ڈونگ ہون نے کہا کہ انہوں نے یون سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے ’غیر آئینی مارشل لا‘ کی وجہ سے پارٹی چھوڑ دیں لیکن وہ مواخذے کی تحریک کو روکیں گے۔
قومی اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر چو کیونگ ہو نے کہا کہ پیپلز پاور پارٹی کے تمام 108 قانون ساز صدر کے مواخذے کو مسترد کرنے کے لیے متحد رہیں گے۔
ریئل میٹر کی جانب سے جمعرات کے روز جاری کیے گئے ایک نئے سروے کے مطابق جنوبی کوریا کے 73.6 فیصد شہریوں نے صدر یون کے مواخذے کی حمایت کی ہے، آج رات یون کے خلاف مزید مظاہرے بھی متوقع ہیں۔
اگر یہ تحریک منظور ہو جاتی ہے تو آئینی عدالت کا فیصلہ آنے تک یون کو معطل کر دیا جائے گا۔ اگر جج اس کی منظوری دیتے ہیں تو یون کا مواخذہ کیا جائے گا اور 60 دن کے اندر نئے انتخابات ہونے ہوں گے۔
2022 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ’بحران سے بحران‘ کی طرف بڑھنے والے صدر یون بدھ کی علی الصبح ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب کے بعد سے عوامی سطح پر نظر نہیں آئے۔
مقامی میڈیا نے ان کے دفتر کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ جمعرات کو کوئی بیان نہیں دیں گے، وزیر دفاع کم یونگ نے استعفیٰ دے دیا ہے، تاہم دیگر اہم وزرا اپنے عہدوں پر بدستور موجود ہیں۔
مقامی خبر ایجنسی یونہاپ کے مطابق تفتیش کاروں نے کم یونگ کو ملک چھوڑنے سے روک دیا ہے۔
دریں اثنا قانون ساز، یون کے مارشل لا کمانڈر کے طور پر کام کرنے والے آرمی چیف آف اسٹاف، جنرل پارک انسو سمیت سینئر عہدیداروں سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
آرمی چیف آف اسٹاف، جنرل پارک نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ انہیں اس وقت تک اندھیرے میں رکھا گیا جب تک کہ صدر نے منگل کی رات براہ راست ٹیلی ویژن پر مارشل لا کے نفاذ کا اعلان نہیں کیا۔
چار دہائیوں بعد پہلی بار مارشل لا جیسے اقدام نے جنوبی کوریا کی قوم کو ماضی کی دردناک یادوں میں دھکیل دیا ہے۔
صدر یون کا مارشل لا لگاتے وقت کہنا تھا کہ ’اس اقدام کا مقصد جنوبی کوریا کو ایٹمی قوت کے حامل دشمن ملک شمالی کوریا کے جارحانہ اقدامات اور ریاست مخالف عناصر کی بیخ کنی کرنا ہے‘۔
آرمی چیف کے 6نکاتی حکم نامے میں سیاسی سرگرمیوں اور جماعتوں، ’جھوٹے پروپیگنڈے‘، ہڑتالوں اور ’سماجی بدامنی کو بھڑکانے والے اجتماعات‘ پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
سیکیورٹی فورسز نے قومی اسمبلی کو سیل کر دیا، ہیلی کاپٹر چھت پر اترے اور تقریبا 300 فوجیوں نے بظاہر قانون سازوں کو اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے عمارت کو تالا لگانے کی کوشش کی۔
تاہم پارلیمنٹ کے عملے نے دروازوں کے پیچھے صوفے اور آگ بجھانے کے آلات رکھ کر فوجیوں کو داخلے سے روکنے کی کوشش کی، رکاوٹیں عبور کرکے بڑی تعداد میں ارکان بھی پارلیمنٹ بھی پہنچ گئے، جہاں انہوں نے ووٹنگ کے ذریعے مارشل لا ختم کرنے کا بل منظور کرلیا تھا۔