نو مئی کو رونما ہونے والے واقعات نہیں ہونے چاہیے تھے لیکن بدقسمتی سے ہوئے۔ بلاشبہ یہ واقعات قابلِ مذمت تھے لہٰذا بھرپور مذمت بھی ہوئی۔ ملوث افراد سزا کے مستحق ٹھہرے تو انہیں گرفتار کیا گیا، کچھ کو سزائیں ہوئیں جبکہ کچھ کو سزائیں دینا ابھی باقی ہے۔ ایسا ہی ہوتا ہے، جرم سرزرد ہو تو قانون اپنا راستہ یونہی اختیار کرتا ہے۔
نو مئی کے واقعات نے شکوک و شبہات کو جنم دیا جس سے معاملہ متنازع ہوگیا اور انہیں تنازعات کی گرد میں ایک سال بیت چکا ہے۔
سانحہ نو مئی: ’کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ناانصافی کا نہیں۔۔۔‘
لیکن اگر مقصد قانون کی آڑ میں مخصوص مفادات کا حصول بن جائے تو معاملات خراب ہوجاتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ہم نے 9 مئی کے بعد دیکھے۔
مقصد اگر صرف ذمہ داروں کا تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزا دینا ہوتا تو ٹیکنالوجی کے اس دور میں ذمہ داروں کا تعین کرکے انہیں سزا دینا کچھ مشکل تو نہیں تھا۔ یہ معاملہ باآسانی نمٹایا جاسکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ نو مئی کو رونما ہونے والے تمام واقعات کو متنازع بنادیا گیا۔
سانحہ 9 مئی خود ساختہ اور تنگ نظر انقلاب لانے کی ناکام کوشش تھی، آئی ایس پی آر
رات کی تاریکی میں چھاپے، چادر اور چار دیوار کے تقدس کی پامالی، غیر قانونی گرفتاریاں، ہفتوں اور مہینوں کی گمشدگی، اس کے بعد سونے پر سہاگا پریس کانفرنسز کروا کر سیاسی وابستگی کی تبدیلی یا سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے اعلانات کروائے گئے اور ٹی وی پروگرامز میں انہیں شخصیات کے انٹرویوز کروائے گئے۔ جس نے پریس کانفرنس کی یا انٹرویو دیا وہ گنگا نہا لیا جبکہ جو اس سے انکاری ہوا اسے دیگر کے لیے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔
آج گنگا نہانے والے اور ظلم سہنے والے لوگ نجی محفلوں میں بیٹھ کر بتاتے ہیں کہ ان پر کیا گزری، کل اگر حالات بدل جائیں گے تو وہ اس پر کھل کر بات کریں گے۔
لیکن ایسا کیوں کیا گیا؟ اگر اس کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کا خاتمہ تھا تو کیا یہ مقصد حاصل ہوا؟ اگر جماعت کی عوامی مقبولیت ختم کرنا مقصود تھا تو کیا وہ ایسا کر پائے؟
سب کرکے دیکھ لیا، سب الٹ ہوگیا جبکہ سانحہ نو مئی کے بیانیے کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والے کسی رحم یا ریلیف کے حقدار نہیں لیکن شفاف انکوائری بھی ناگزیر ہے۔
گزشتہ کوتاہیوں کا ازالہ ابھی ہوا نہیں اور رواں ہفتے ایک اور پریس کانفرنس کر ڈالی۔ غیرسیاسی ادارے کی سیاسی پریس کانفرنس۔۔۔ یہ نہ ہی ہوتی تو بہتر تھا۔ ملک میں جو ہورہا ہے وہ سب کے علم میں ہے لہٰذا یہ پریس کانفرنس غیر ضروری تھی۔ لبِ لُباب یہ تھا کہ سانحہ نو مئی پر صدقِ دل سے معافی مانگی جائے اور توبہ کی جائے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر معافی کس سے مانگی جائے؟ بہرحال جواب بھی آچکا ہے، خان صاحب معافی مانگنے سے انکاری ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ خود ان سے معذرت کی جائے۔
میرے خیال سے کچھ پردے اگر پڑے ہی رہیں تو بہتر ہوتا ہے۔ اداروں کا دل سے احترام ایک جانب لیکن بہتر ہوتا اگر یہ پریس کانفرنس وزیر دفاع سے کروائی جاتی۔ سیاسی جماعت نے اس پریس کانفرنس کا جواب دیا اور اس کے ووٹرز اور سپورٹرز بھی جواب دینے میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ چلیے الیکٹرونک میڈیا تو کنٹرول ہوجائے گا لیکن سوشل میڈیا کو کیسے قابو میں کریں گے؟
دوسری جانب پی ٹی آئی نو مئی پر انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کا قیام چاہتی ہے۔ ویسے اگر ایک فریق یہ مطالبہ کررہا ہے تو اس انکوائری میں کیا مضائقہ ہے خاص طور پر جب واقعات کے ناقابلِ تردید شواہد بھی موجود ہیں۔ انکوائری ہوگی تو اچھا ہے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ جو آج بھی تحریک انصاف کو معصوم سمجھتے ہیں وہ اپنی آنکھوں سے ثبوت دیکھ لیں گے، پھر چاہیں تو یہ انکوائری 2014ء کے دھرنے سے بھی شروع کی جاسکتی ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بار بار کہتے ہیں کہ ملک میں ایک ٹرتھ اینڈ ری کنسلیشن کمیشن بنانا چاہیے، تو چلیے ایسا کرنے سے کہیں سے تو شروعات ہوگی۔
اگرچہ انصاف ہونا ضروری ہے لیکن انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے تب ہی ملک کے قانون پر اعتماد بحال ہوگا۔
اس وقت عوام میں غم و غصہ، بے چینی، بے یقینی، ناامیدی، مایوسی جیسے جذبات پنپ رہے ہیں (عوامی کیفیات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کم پڑ گئے ہیں)، ان کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس کا حل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران دیا کہ ’سب‘ کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا۔ خدارا انا کے دامن کو چھوڑ کر اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
آج 9 مئی ہے، تین دن بعد 12 مئی آئے گا جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں۔ ایک یوٹیوب چینل کے لیے 12 مئی کے حوالے سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا تو ماضی کی تلخ یادیں تازہ ہوگئیں۔ ہم متحدہ قومی موومنٹ سے برسوں 12 مئی فسادات کا حساب مانگتے رہے جبکہ وہ شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل انکوائری کا تقاضا کرتی رہی۔ پھر وقت بدل گیا اور کہا جانے لگا کہ مٹی پاؤ اور یوں ہم آگے بڑھ گئے۔
پھر 2014ء میں ماڈل ٹاؤن کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوا۔ سب چیخے چلائے، انصاف کی دہایاں دیتے رہے لیکن پھر وقت بدلا اور سب کو سانپ سونگھ گیا۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ناانصافی کا نہیں۔۔۔ کاش ان واقعات کی بھی شفاف تحقیقات ہوتیں، ذمہ داروں کا تعین ہوتا اور ملزمان کو سزائیں دی جاتیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ اپنی انا کے خول سے باہر آئیں کیونکہ ہماری ملکی تاریخ اس نوعیت کے سانحات سے بھری پڑی ہے۔ ملک کا دو لخت ہونا، آرمی پبلک اسکول میں بچوں کا قتلِ عام، کیا ان سانحات کی اہمیت نو مئی سے کم ہے؟ دشمن کے بچوں کو پڑھا کر سدھار سکتے ہیں تو اپنے ملک کے جذباتی نوجوانوں کو بھی ایک موقع دے ہی سکتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ ملک ہمارا ہے، یہ فوج بھی ہماری ہے۔ فوج ہماری محافظ اور اس ملک کی بقا کی ضامن ہے۔ دشمن دوریاں اور بدگمانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے جسے ہمیں شکست دینا ہوگی لیکن یہ کام ہمیں مل کر کرنا ہوگا اور یہ صرف بدگمانیاں اور نفرتیں ختم کرکے ہی ممکن ہے۔