سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی اپیلوں پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین کے وکیل علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمران خان عدالت سے خود مخاطب ہونا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے تشریح نظر ثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کر رہا ہے، جسٹس امین الدین ،جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس مظہر عالم بینچ میں شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کی کراچی پریس کلب کے نئے اراکین کے لیے اہم اعلانات، مسائل کے حل کی یقین دہانی
یاد رہے کہ وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی نے نظرثانی درخواستوں کی حمایت کر رکھی ہے۔
گزشتہ سماعت کا احوال:
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63-اے کی تشریح سے متعلق نظرثانی کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کردہ حکم نامے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 63-اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت پانچ رکنی بینچ نے کی تھی، بینچ میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل تھے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا اور اکثریتی فیصلے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن کی حمایت حاصل تھی جبکہ اقلیتی ججز جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس جمال خان مندو خیل نے اختلافی نوٹ تحریر کیے تھے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے 23 جون 2022 کو نظرثانی اپیل دائر کی تھی۔
اس میں کہا گیا کہ جسٹس منیب اختر کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا گیا ہے اور جسٹس منیب اختر نے اپنے خط میں بینچ میں شمولیت سے معذرت کی جس کے بعد ججز کمیٹی کی دوبارہ میٹنگ بلا کر جسٹس نعیم اختر افغان کو بینچ کا حصہ بنایا گیا۔
63 اے تفصیلی فیصلہ سے متعلق رجسٹرار کی رپورٹ پیش کی گئی تھی جس کے مطابق کیس کا تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا۔
بعد ازاں، بیرسٹر علی ظفر نے نظر ثانی درخواستوں کی مخالفت میں دلائل کے دوران بینچ پر اعتراض کیا جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا تاہم عدالت نے علی ظفر کی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں قانونی مشاورت کیلئے ملاقات کی اجازت دے دی تھی۔
کیس کا پس منظر:
واضح رہے کہ 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا، جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔
اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔
اس معاملے پر مختلف نظرثانی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں لیکن ان درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی تھی۔