غیر قانونی تعمیرات اور کرپشن میں لتھڑے افسران کو احتساب کی شکنجے میں کسنے کی بجائے دوسری پرکشش جگہوں پر تعینات کیا جا رہا ہے؟؟؟؟؟
حال ہی میں ڈی جی عبدالرشید سولنگی کی جانب سے ادارے میں کی جانے والی 44 افسران کی اکھاڑ پچھاڑ نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا چن چن کر ان ہی افسران کو ایک جگہ سے دوسری پرکشش جگہ پر تعینات کیا گیا جن پر انکوائریاں ہونی تھیں جے آئی ٹی بیٹھنا تھی سوال یہ ہے کہ کیا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ایماندار اوراہل افسروں کا قحط پڑ گیا ہے؟؟؟؟؟
تبادلوں کے نام پر نئے "سسٹم” کی انٹری ؟
کیا پورے ادارے میں ایسے افسران دستیاب نہ تھے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجے جانے والے افسران کی جگہ تعینات ہو سکتے؟؟؟؟
دوستو تبادلوں اور تقرریوں کے اس گورکھ دھندے میں ذرائع کے مطابق سیاسی پرچیاں بھی چلیں مستقبل میں کرپشن کو بڑھاوا دینے کے وعدے وعید بھی ہوئے اور تعلقات بھی کام آئے آئیے ان تبادلوں کے ذریعے مستفید ہونے والے کچھ افسران پر بات کر لیتے ہیں انجینیئر عامر کمال جعفری گریڈ 19 کے یہ افسر ڈسٹرکٹ سینٹرل میں بطور ڈائریکٹر تعینات تھے انہیں سابقہ مراعات کے ساتھ ہی ایک خالی آسامی پر ڈسٹرکٹ ویسٹ میں بطور ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا دوستو انجینئر عامر کمال جعفری کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو اس پر کئی سوالیہ نشانات لگے دیکھے جاسکتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری شان و شوکت کے ساتھ انہیں ڈسٹرکٹ ویسٹ بھیجنے کی بجائے ان کے خلاف انکوائری کی جاتی ایک جے آئی ٹی بننا چاہیے تھی جو ڈسٹرکٹ سینٹرل میں دھڑلے سے کی جانے والی غیر قانونی تعمیرات پر ان کا احتساب کرتی دوستو قصہ یہ ہے کہ صرف چھ ماہ کے عرصے میں سینٹرل میں لگ بھگ ساڑھے تین سو عمارتوں کے اضافی فلور ڈالے گئے غیر قانونی تعمیرات کا ایسا طوفان اٹھا کہ الامان الحفیظ
کیا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں نیا سسٹم لانچ ہو رہا ہے۔۔؟؟؟؟
ناظم آباد پانچ نمبر نارتھ کراچی نارتھ ناظم آباد کے تمام بلاکس غرض یہ کہ سینٹرل کا کون سا علاقہ ایسا ہے جہاں غیر قانونی تعمیرات نہ ہوئی ہوں اور ان سب کے پیچھے مرکزی ہاتھ عامر کمال جعفری کا ہی تھ اس تمام عرصے میں تشکر نیوز باقاعدگی سے ان غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کرتا رہا تشکر نیوز کی اسکرین اس دعوے کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اب سوال یہ ہے کہ عامر کمال جعفری کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگی تھی کہ ڈی جی صاحب نے انکھیں بند کر کے عامرکمال جعفری کو ڈسٹرکٹ سینٹرل کا بیڑا غرق کرنے پر بطور انعام انہیں ویسٹ میں تعینات کر دی کیا اس کا مطلب یہ نہیں لیا جائے کہ سینٹرل کے بعد اب انہیں ویسٹ میں کھلی اندھیر نگری مچانے کا باضابطہ لائسنس دے دیا گیا ہے؟؟؟؟؟
کیا ان کی تقرری بہت سارے سوالات کے جوابات کی منتظر نہیں ہے؟؟؟؟؟
ڈی جی صاحب آپ خود بتائیے کہ عامر کمال جعفری کو پورے پروٹوکول اور مراعات کے ساتھ ویسٹ میں کیوں تعیینات کیا گیا ؟؟؟؟؟
کیا ان کے خلاف انکوائری نہیں بنتی ؟؟؟؟؟
کیا انہیں جے آئی ٹی کے روبرو نہیں کھڑا ہونا چاہیے تھا ؟؟؟؟
کیا وہ سینٹرل میں غیر قانونی تعمیرات روکنے کے لیے سب سے بڑے مجاز سرکاری افسر نہیں تھے؟؟؟؟؟؟
انہوں نے جو لوٹ مار کی اس کا حساب ان سے نہیں لیا جائے گا ؟؟؟؟؟
کیا اس تعیناتی کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل کا کامیابی سے بیڑا غرق کرنے کے بعد انہیں بطور انعام اور شاباش اب ویسٹ کا ستیاناس کرنے کا لائسنس تفویض کر دیا گیا ہے تشکر نیوز حقائق پر مبنی سوالات تو اٹھائے گا نہ کوئی مصلحت آڑے آئے گی اور نہ کوئی دباؤ سوال تو بنتا ہے کہ عامر کمال جعفری نے ایسی کون سی پرچی لگا دی کہ معطلی کے بجائے ان پر نوازشات کی بارش ہو گئی؟؟؟؟
سوال یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل کا جو بیڑا غرق کیا اس کا جواب کون دے گا ؟؟؟؟
دوستو آگے چلتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں ایسے ہی ایک اور معنی خیز تبادلے کا یہ ہیں انجینیئر سید آصف رضوی گریڈ 19 کے ڈائریکٹر ڈسٹرکٹ ویسٹ ان کا تبادلہ ہوا اور سابقہ مراعات اور سہولیات کے ساتھ ڈسٹرکٹ ایسٹ ان کی جھولی میں ڈال دیا گیا ان کے دور میں ڈسٹرکٹ ویسٹ میں کھل کر بغیر نقشوں کے بے شمار غیر قانونی تعمیرات ہوئیں دیکھتے ہی دیکھتے پورا ڈسٹرکٹ غیر قانونی تعمیرات کا جنگل بن گیا کیا ڈی جی صاحب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آصف رضوی جو اس تمام عرصے میں ویسٹ میں غیر قانون تعمیرات کے پیچھے براہ راست ملوث رہے ان کا ایسٹ میں تبادلہ کیوں کیا گیا ؟؟؟؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ ایسٹ کو بھی ویسٹ بنانے کی تیاری ہو رہی ہے؟؟؟؟؟
مصدقہ ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ دنوں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں تبادلوں اور تقرریوں کا جو جھکڑ چلا اس میں بہت سے معاملات طے ہوئے سیاسی پرچیاں چلائی گئیں بااثر اور طاقتور افسران کی طرف سے آنکھیں پھیر لی گئیں باقی جو بچے انہیں ادھر سے ادھر کر دیا گی ڈی جی ایس بی سی اے عبدالرشید سولنگی جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ ایک اچھے افسر ہی انتظامی عہدوں پر کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ان کی شہرت پر بھی کوئی داغ نہیں ہے کرپشن کے خلاف پہلے بھی مختلف اداروں میں کھڑے ہوچکے ہیں لیکن یہاں پر ہم رشید سولنگی صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بدنام زمانہ اور کرپٹ افسران کو ایک جگہ سے ہٹا کر اس سے بہتر دوسری جگہ پر لگانے سے کیا بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کرپشن کے طوفان کے سامنے بند باندھا جا سکے گا ؟؟؟؟
کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ حال ہی میں ادارے میں جتنی تقرریاں اور تعیناتیاں ہوئی ہیں ان کے محرکات کچھ اور ہیں ؟؟؟؟
کیا ان لوگوں کی طرف سے نظریں نہیں پھیرلی گئیں ؟؟؟
کیا اس سے یہ صاف پتہ نہیں چل رہا کہ ان افسران کے خلاف انکوائری نہ کرنے کی جسارت نہیں کی گئی جو با اثر تھے اور جنہوں نے بڑی بڑی پرچیوں کا سہارا لیا تھ کیا ان تمام تبادلوں اور تعیناتیوں میں سیاسی عوامل کارفرما نہیں تھے؟؟؟؟؟؟ یہ سوال بھی ہے کہ کیا اب بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں صاف ستھری شہرت کے حامل ڈائریکٹرز نہیں بچے جن پر نظر کرم کی جاتی اور انہیں ان ڈسٹرکٹس میں لگایا جاتا کیا ان ہی افسران کو لگانا ضروری تھا جن پر کرپشن اور بے ضابطیوں کے حوالے سے انکوائریاں ہونی تھی سامعد علی خان صاحب اچھے انکوائری افسر ہیں اور اپنے کام میں مہارت بھی رکھتے ہیں وہ کھل کر انکوائری کریں اور اس کے مندرجات پبلک کری اسی طرح جیسے بلڈنگ انسپیکٹر لطافت مرزا کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے یہاں چلتے چلتے ایک اور نام کی بھی نشاندہی ضروری ہے اور وہ ہے فرحان کالا
کیا فرحان کالے نے پورے فیڈرل بی ایریا کو کھود کر نہیں رکھ دیا؟؟؟؟
کیا فرحان کالے وہ غیر قانونی تعمیرات میں ملوث نہیں ؟؟؟؟؟
بلڈنگ انسپکٹر لطافت مرزا کی طرح اس کے خلاف انکوائری کیوں نہیں ہوئی؟؟؟؟
کیا بلڈنگ انسپکٹر رند نے نارتھ کراچی کا بیڑا غرق نہیں کر دیا؟؟؟؟
وہاں بننے والے غیر قانونی شادی ہال۔۔ بینکوئیٹ اور غیرقانونی تعمیرات کا جواب کون دے گا ؟؟؟؟؟؟
کیا یہ عناصر کبھی احتساب کے کٹہرے میں نہیں آئیں گے؟؟؟؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ان کالی بھیڑوں کا چن چن کر احتساب کیا جائے ان سے کرپشن کے اربوں روپے ریکور کیے جائیں وزیر بلدیات سندھ سعید غنی اور ڈی جی ایس بی سی اے عبدالرشید سولنگی کو اب کھل کر اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا اور ان کرپٹ افسران کے خلاف واضح اور موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی یقین جانیے اگر ارباب اختیار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ان کالی بھیڑوں کی شکنجے سے ازاد کروانے میں کامیاب ہو گئے تو تاریخ میں انہیں بہترین منصف اور منتظم کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور کراچی کے تین کروڑ عوام کی دعائیں اور نیک خواہشات ان کے ساتھ ہوں گی۔