اقوام متحدہ میں ’دہشتگردی کے متاثرین کی ایسوسی ایشن نیٹ ورک‘ کے آغاز کے موقع پر پاکستان مشن کے قونصلر جواد اجمل نے قومی بیان دیتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ دہشتگرد حملوں کے متاثرین اور ان کے خاندانوں کی حمایت کرنا صرف ایک انسانی فریضہ نہیں بلکہ عالمی ذمہ داری بھی ہے۔
زیارت میں سی ٹی ڈی اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 7 دہشت گرد ہلاک
انہوں نے کہا کہ متاثرین کی مدد کے لیے تنگ نظری پر مبنی سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی اور غیر امتیازی حکمت عملی اپنائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ بنایا جانا ناگزیر ہے، اور دنیا کو متنازعہ علاقوں میں متاثرہ افراد کے لیے مساوی توجہ دینی چاہیے۔
جواد اجمل نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف عالمی اقدامات کے باوجود دہشتگردانہ واقعات اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے، ہمیں اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا کہ موجودہ عالمی پالیسیوں میں کیا خامیاں ہیں۔
پاکستان نے دہشتگردی کی تمام اقسام کی غیر مشروط مذمت کی، جن میں دائیں بازو کی انتہا پسندی، اسلاموفوبیا، نسل پرستی، لسانی بنیاد پر دہشتگردی اور ریاستی سرپرستی میں کی جانے والی دہشتگردی شامل ہے۔
پاکستانی مندوب نے واضح کیا کہ حق خودارادیت کی جائز جدوجہد اور دہشتگردی کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو دہشتگردی کے بنیادی اسباب کا ادراک کرتے ہوئے ان کا تدارک کرنا ہوگا۔
انہوں نے عالمی برادری سے سوشل میڈیا، ڈارک ویب اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے نفرت انگیزی اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کا مؤثر جواب دینے کی اپیل کی۔ اس کے علاوہ، جواد اجمل نے ایک متفقہ اور جدید عالمی تعریف کی ضرورت پر زور دیا جو دہشتگردی کے بدلتے رجحانات کی عکاسی کرے۔
پہلگام، اننت ناگ میں حالیہ حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے سیاحوں کی ہلاکت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سلامتی کونسل کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر اس واقعے کی مذمت کی ہے۔
آخر میں، انہوں نے کہا کہ پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشتگردی کا شکار ہے اور 80 ہزار سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع کے باوجود پاکستانی عوام کا حوصلہ کم نہیں ہوا۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہدا کے خاندانوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے ملک کے تحفظ کے لیے قربانیاں دیں۔