کراچی (اسٹاف رپورٹر) — شہر قائد میں رواں سال آتشزدگی کے 500 سے زائد واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر واقعات ریجن 2 میں پیش آئے۔ ان حادثات کی اہم وجہ سندھ اینرجی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے بغیر انسپیکشن این او سی (نقصان دہ اشیاء سے پاک سرٹیفکیٹ) جاری کیے جانا سامنے آئی ہے۔
یومِ تکبیر قوم کے دفاع، اتحاد اور قربانیوں کی یادگار ہے، شاداب رضا نقشبندی
ذرائع کے مطابق، حال ہی میں متعدد رہائشی و کمرشل عمارتوں کو جاری کیے گئے این او سی منظر عام پر آ گئے ہیں، جن میں کہیں یہ ذکر موجود نہیں کہ وائرنگ پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA) سے منظور شدہ کیبل کمپنی کی ہے یا نہیں۔
یاد رہے کہ گلشنِ معمار میں واقع ایک گتہ فیکٹری میں آتشزدگی کے دوران ریسکیو 1122 کا اہلکار بلال تنولی شہید ہو گیا تھا، جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کئی جانیں بچائیں۔
ذرائع کے مطابق، ان متنازعہ این او سیز میں ریجن 2 کے اسسٹنٹ الیکٹرک انسپکٹر فرحان واجد کا نام سامنے آیا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ مبینہ طور پر این او سی جاری کرنے کے عوض لاکھوں روپے رشوت وصول کرتے ہیں۔
فرحان واجد گزشتہ دس سالوں سے مبینہ طور پر این او سی کے بدلے بڑی مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے سینئر افسر امجد میہسر (الیکٹرک انسپکٹر ریجن 2) سے بھی زیادہ بااثر سمجھے جاتے ہیں۔
ذرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ این او سی جاری کرنے سے قبل صرف نمائشی سائٹ وزٹ کیے جاتے ہیں، اور سائٹ پر ہی "معاملات طے” کر لیے جاتے ہیں۔ ان این او سیز کی قانونی و تکنیکی جانچ پڑتال نہ ہونے کے باعث شہر میں آتشزدگی کے خطرناک اور جان لیوا واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ذرائع کے مطابق، فرحان واجد پر مالی خرد برد کے الزامات بھی زیر گردش ہیں، اور ان کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے