بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے ایک ایسا خطاب کیا جو نہ صرف بے جان اور غیر متاثر کن محسوس ہوا بلکہ اس میں انہوں نے ایک بار پھر پاکستان پر روایتی الزامات کی گردان دہرائی۔ پہلگام واقعے کو ظلم قرار دیتے ہوئے مودی نے دعویٰ کیا کہ بھارت اب کسی بھی حملے کا فوری جواب دے گا، اور "نیو نارمل” یہی ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ "پانی اور خون ساتھ نہیں بہہ سکتے، تجارت، مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔”
Pakistan’s Strategic Military Triumph | Modi Accepts Ceasefire | Pak Army’s Defense Power
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان سے بات چیت ہوئی بھی تو صرف دہشت گردی کے خاتمے اور آزاد جموں و کشمیر پر ہوگی، مقبوضہ کشمیر پر نہیں۔ مودی نے اپنی تقریر میں یہ جھوٹا بیانیہ بھی پیش کیا کہ جنگ بندی پاکستان کی درخواست پر ہوئی اور دعویٰ کیا کہ بھارت ایٹمی دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکے گا۔
تاہم، عالمی میڈیا اور ماہرین کی رائے اس کے برعکس ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے سینئر صحافی اور انٹرنیشنل ڈپلومیٹک ایڈیٹر نک رابرٹسن نے انکشاف کیا کہ دنیا کے مختلف ممالک کئی دنوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان سیزفائر کی کوششوں میں مصروف تھے، مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر بھارت نے پاکستان کی ایئربیسز پر حملہ کیا، جس کے بعد پاکستان نے جوابی طور پر نہ رکنے والے میزائل حملوں سے بھارت کو چونکا دیا۔
نک رابرٹسن کے مطابق، انہی میزائل حملوں کے دباؤ نے بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر دیا۔ ان حملوں کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے سعودی عرب اور ترکی سے رابطہ کیا اور سفارتی کوششوں کے ذریعے سیزفائر ممکن بنایا گیا۔
ادھر بھارت کے معروف اور سینئر صحافی سدھارتھ وراداراجن نے بھی مودی کے بیانیے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ مودی حقیقت کو مسخ کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے میں ماہر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے خود سیزفائر کے لیے امریکا اور دیگر طاقتوں سے رجوع کیا تھا، نہ کہ پاکستان نے۔
یہ صورتِ حال واضح کرتی ہے کہ بھارت اندرونی دباؤ اور عالمی ردعمل کی شدت کو چھپانے کے لیے ایک مصنوعی بیانیہ قائم کر رہا ہے، جب کہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔