فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے یوتھ ونگ کی جانب سے جنوب مغربی شہر کھلنا میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں طلبہ کی رکنیت سازی کی کوشش پر شدید جھڑپیں ہوئیں۔
نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار کی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ملاقات، عالمی امور پر تبادلہ خیال
اس دوران ‘اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمنیشن’ کے ارکان سے محاذ آرائی شروع ہو گئی، جس میں وہ احتجاجی گروپ بھی شامل تھا، جس نے گزشتہ سال اگست میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹانے والی بغاوت کی قیادت کی تھی۔
کھلنا پولیس کے افسر کبیر حسین کے مطابق تصادم کے بعد کم از کم 50 افراد کو علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا، جبکہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔
کمیونیکیشن کے طالب علم زاہد الرحمٰن نے اے ایف پی کو بتایا کہ جھڑپ میں زخمی ہونے والے افراد اینٹوں اور تیز دھار ہتھیاروں سے زخمی ہوئے، جبکہ 100 کے قریب افراد کو معمولی چوٹیں آئیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی فوٹیجز میں متحارب گروپوں کو چاقو اور چھریاں پکڑے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ زخمی طلبہ کو اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔
الزامات اور احتجاج:
دونوں گروہوں نے ایک دوسرے پر جھڑپ شروع کرنے کا الزام عائد کیا۔ بی این پی اسٹوڈنٹ ونگ کے سربراہ ناصر الدین ناصر نے اسلامی سیاسی جماعت کے ارکان پر تصادم کو بھڑکانے کا الزام لگایا، جبکہ مقامی طالب علم عبید اللہ نے کہا کہ بی این پی نے کیمپس کی غیر سیاسی حیثیت کی خلاف ورزی کی ہے۔
اس واقعے کے بعد طلبہ میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے، اور ڈھاکا یونیورسٹی میں بی این پی یوتھ ونگ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
سیاسی پس منظر:
امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ تحریک نے گزشتہ سال بنگلہ دیش کی سابق حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کو جلاوطنی اختیار کرنی پڑی تھی۔ بی این پی کارکنوں نے حسینہ واجد کی حکومت کے آخری دنوں میں سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے خلاف طلبہ کا ساتھ دیا تھا، جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ بی این پی اگلے سال ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی، جو ملک کی موجودہ نگران حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوں گے۔ تاہم، طلبہ رہنماؤں کو ایک مستحکم سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔