عسکری مصنوعات کے بائیکاٹ کی بے سروپا مہم، جعلی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو لگام ڈالنا ضروری

تحریر : سید محمد عروج

دوستو ۔۔ دشمن قوتوں نے ففتھ جنریشن وار کے ذریعے ریاست پاکستان کے خلاف بالعموم اور افواجِ پاکستان کے خلاف بالخصوص ایک ایسی جنگ شروع کر رکھی ہے جس میں ہمارے اپنے شہری نوجوان وغیرہ دشمنوں کے پیادے اور گھڑ سوار بن کر ریاست پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ عمران خان نے انہیں ایک ایسا بیانیہ دے دیا ہے، جس کی جگالی کے ذریعے وہ معاملات کو لے کر چلتے ہیں اورچلتے ہی جا رہے ہیں۔ہمارا ملک سوشل میڈیا میں بیٹھے ففتھ جنریشن وار کے سپاہیوں کے نشانے پر ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ دن رات، صبح شام ریاست پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ فیک نیوز کے ذریعے بدامنی پھیلاتے ہیں، زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے ذہنی انارکی پھیلاتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔

واٹربورڈ کی سنگین غفلت 9 روز تک مرمت، پانی کی لائن پھررسنے لگی کراچی کے 60 فیصد مکین پانی سے محروم
ایسے ہی سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں نے ”عسکری مصنوعات کا بائیکاٹ“ مہم چلا رکھی ہے اس مہم کے ذریعے وہ ایسا تاثر پیدا کرنے کی کاوشیں کر رہے ہیں جیسے مسلمانوں کے لئے یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہو۔ عسکری ادارے، فلاحی ہوں یا کمرشل،ہماری قومی معیشت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ گزشتہ دِنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ یہ ادارے اربوں روپے کا ٹیکس قومی خزانے میں جمع کراتے ہیں۔ 300ارب سے زائد ٹیکسوں کی مد میں قومی خزانے میں جمع کرایا جاتا ہے یہ ایک خطیر رقم ہے جب اِس قدر ٹیکس جمع کرایا جاتا ہے تو پھر ہمیں اندازہ ہونا چاہئے کہ ایسے اداروں میں کس قدر پیداواری عمل جاری و ساری ہو گا، کتنے لوگوں کو براہِ راست اور کتنے لوگوں کو بالواسطہ روزگار میسر ہو گا۔پھر یہ سب کچھ ہمارے ملک میں ہی ہو رہا ہے ایسے پیداواری عمل میں استعمال ہونے والا خام مال اور اس سے تیار ہونے والا مال ہماری قومی معیشت کا حصہ بنتا ہے ایسے میں عسکری مصنوعات کا بائیکاٹ کیا معئنی رکھتا ہے

عسکری ادارے بشمول تعلیمی ادارے ہمارے معاشرے میں اعلیٰ خدمات سرانجام دے رہے ہیں،پرائمری کی سطح سے لے کر مڈل اور ہائی سکول تک، پھر کالج و یونیورسٹی لیول تک عسکری ادارے قومی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ان اداروں کو دورِ جدید سے ہم آہنگ روایات و قواعد کے مطابق چلایا جاتا ہے ان اداروں سے فارغ التحصیل بچے بچیاں نہ صرف معاشروں میں بہترین شہری کے طور پر جانے جاتے ہیں اور بہترین پیشہ ور کے طور پر اپنا آپ منواتے ہیں، بلکہ انہیں اپنے اداروں پر فخر بھی ہوتا ہے۔دوسری طرف تجارتی وکاروباری مقاصد کے لئے قائم ادارے ہیں ان میں سی ایس ڈی ڈیپارٹمینٹل سٹورز کا وسیع و عریض نیٹ ورک ہے جو اشیاء ضروریہ کی فراہمی یا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔سی ایس ڈی اپنی پہچان آپ ہیں یہاں معیاری اشیاء مناسب ہی نہیں انتہائی مناسب قیمتوں پر فراہم کی جاتی ہیں یہ سہولیات ہر خاص و عام کے لئے ہیں۔بہترین ماحول اور اعلیٰ انتظام کے تحت یہ سروس کروڑوں شہریوں کے لئے دستیاب ہے۔

سوشل میڈیا کے حوالے سے دنیا بھر میں بحث جاری ہے کہ اس کے ذریعے پھیلنے والی جھوٹی خبروں کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ اس پر بہت سے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا ہی نے معاشرے میں مائیک کو اتنا طاقت ور بنا دیا ہے کہ اس کی دھونس ہر جگہ چلتی ہے۔ مائیک والا ہی جج، جیوری اور جلاد ہے۔ صحافیوں سے بات کی جائے تو سوشل میڈیا جرنلسٹس، جن کو سٹیزن جرنلسٹس بھی کہا جاتا ہے، ان کو صحافی مانتے ہی نہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ سٹیزن جرنلسٹس کی صحافیانہ تربیت نہیں ہوئی، مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے بھی ان کی تربیت کے لیے کام نہیں کیا۔دنیا میں بہت سارے ممالک نے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں، جن میں سے ایک ہے کہ ہر پلیٹ فارم چاہے وہ یوٹیوب پر ہو اس کو رجسٹر کروانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔۔ایسا کرنے سے ہر سوشل میڈیا والا نا صرف ریڈار میں ہو گا بلکہ اس کو یہ خوف بھی ہو گا کہ جھوٹے الزامات لگانے، کسی کی پگڑی اچھالنے اور بےتکی اور غلط خبریں پھیلانے پر اس کی پکڑ کی جا سکتی ہے۔

ایسے میں سوال تو بنتا ہے کہ پی ٹی آئی نے فوجی کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل تو کردی لیکن انہوں نے کبھی اسرائیلی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی بات نہیں کی، یہ لوگ فلسطین کے حق میں ہونے والی اے پی سی میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے۔یہ ملکی مصنوعات کے پیچھے پڑے ہیں جو سستی ہیں اور عوام استعمال کرتے ہیں، آئندہ بھی کریں گے، جو کچھ یہ کررہے ہیں یہ سب کچھ اور ہی ایجنڈا ہے

دوستو اس بائیکاٹ مہم کی ابتدا باہر سے ہوئی۔ جو پاکستانی سیاستدان اور صحافی، اینکر حضرات آج کل امریکا اور یورپ میں مقیم ہیں، وہ اس حوالے سے زیادہ پرجوش رہے ہیں۔ وہ اپنی ٹوئٹس، تحریروں کے ذریعے پاکستانی انصافین کو ترغیب دلاتے اور جوش بھرتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض کی تحریروں کو دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ پاکستان کے معروضی حالات اور زمینی حقائق سے اتنے بے بہرہ اور بے خبر تو نہیں تھے، اب باہر رہتے ہوئے کیا ہوگیا ہے؟ خودساختہ یوٹیوپیا میں کیوں مقیم ہیں؟ انہیں کچھ سمجھ آ رہا ہے اور نہ ہی کسی اور کو سمجھنے دے رہے ہیں۔ یہ بائیکاٹ مہم تحریک انصاف کے لیے بہت ہی نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوگی۔ کوئی مانے یا نہ مانے، اس بائیکاٹ مہم کا تحریک انصاف کو نو مئی کی طرح کا ہی نقصان اٹھانا پڑے گا

54 / 100

One thought on “عسکری مصنوعات کے بائیکاٹ کی بے سروپا مہم، جعلی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو لگام ڈالنا ضروری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!