وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن نے کہا ہے کہ عمر کوٹ میں ڈاکٹر شاہ نواز کو جعلی پولیس مقابلہ میں مارا گیا، مقابلے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمر کوٹ میں ہونے والے واقعے کی انکوائری کے لیے سی سی ٹی وی سے مدد لی گئی، متاثرین جسے ذمہ دار قرار دیں گے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائےگی۔
شمالی وزیرستان: سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی، 8 دہشتگرد ہلاک
ان کا کہنا تھا کہ انکوائری میں الزام درست ثابت ہونے پر اہلکاروں کو معطل کیا گیا اور یہ ایک جعلی پولیس مقابلہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ عمرکوٹ میں پولیس اہلکاروں پر جعلی پولیس مقابلے کا الزام تھا، وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
صوبائی وزیر داخلہ نے کہا کہ ان کے اہلخانہ کو آزادی حاصل ہے کہ وہ ذمہ داروں کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ ( ایف آئی آر) درج کراسکتے ہیں ، ذمہ داران کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائی گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیٹی نے میرپور خاص پولیس اور سی آئی اے میرپور خاص کو واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے اور سب کے خلاف ایف آئی آر کا اندارج کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر مقتول کے اہلخانہ نے ایف آئی آر نہ کٹوائی تو ریاست مقدمہ درج کروائے گی، تحقیقات کے مطابق پولیس نے عمرکوٹ میں جعلی پولیس مقابلہ کیا تھا، عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے، درج ہونے والی 6 ایف آئی آرز کی تحقیقات کی جائیں گی۔
ضیاالحسن لنجار نے کہا کہ میر پور خاص کے نئے ڈی آئی جی بطور چیئرمین کمیٹی ان ایف آئی آرز کی تحقیقات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ابھی زیر تحقیق ہے کہ ڈاکٹر شاہ نواز ملزم تھے یا مجرم اور اس کا فیصلہ ان کے موبائل فون کے پنجاب سے فارنزک کے بعد کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ عمرکوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کا میرپورخاص میں پولیس نے گولی مار کر مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کردیا تھا۔
19 ستمبر کو ڈاکٹر شاہ نواز کے خلاف عمرکوٹ پولیس نے مبینہ طور پر مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد فیس بک پر ’گستاخانہ مواد‘ پوسٹ کرنے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ملزم کراچی فرار ہو گیا تھا لیکن عمرکوٹ پولیس نے اسے گرفتار کر کے میرپورخاص منتقل کردیا جہاں مبینہ طور پر اسے سندھڑی پولیس نے ایک ’انکاؤنٹر‘(پولیس مقابلے) میں ہلاک کر دیا، البتہ پولیس نے اس شخص کو کراچی سے گرفتار کرنے سے انکار کیا ہے۔
سندھڑی کے ایس ایچ او نیاز کھوسو نے ملزم کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکٹر نے ’ساتھیوں‘ کے ساتھ مل کر پولیس پر فائرنگ کی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ جوابی کارروائی میں ملزم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جبکہ اس کا مبینہ ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
اس تمام واقعے سے ایک دن قبل ڈاکٹر شاہ نواز نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے اور وہ گستاخانہ مواد شیئر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
عمرکوٹ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایم ایس کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز ایک مخلص ڈاکٹر تھے جو 12 ستمبر کو ’لاپتا‘ ہوگئے تھے اور اس کی وجہ ’نفسیاتی مسئلہ‘ ہوسکتا ہے۔
توہین مذہب کے مبینہ واقعے کے خلاف عمرکوٹ میں احتجاج کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے تھے، مشتعل مظاہرین کا ایک بڑا ہجوم بدھ کو پریس کلب کے سامنے جمع ہوا اور ڈاکٹر کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا جبکہ انہوں نے پولیس موبائل کو بھی آگ لگا دی تھی۔
’انکاؤنٹر‘ کے بعد لاش کو اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا جو اسے تدفین کے لیے ملزم کے آبائی گاؤں جنہیرو لے گئے، تاہم، لاش چھیننے کے لیے ایک ہجوم جمع ہوگیا اور اہل خانہ کو وہاں فرار ہونا پڑا تھا جس کے بعد مشتعل افراد نے مقتول کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔