غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے تقریباً 30 فیصد حصے کو "آپریشنل سیکیورٹی پیرامیٹر” قرار دے دیا ہے۔ فوج کے مطابق 18 مارچ سے جاری فضائی حملوں میں عسکریت پسندوں کے 1200 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں 100 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی کیسز کی سماعت: چیف جسٹس کا سازش کے الزامات پر ٹھوس شواہد کی ہدایت
اسرائیلی وزیر دفاع، اسرائیل کاٹز نے کہا ہے کہ جنگ کے اختتام کے بعد بھی فوج غزہ میں بنائے گئے بفر زون میں موجود رہے گی، جیسا کہ لبنان اور شام کی سرحدوں پر ہے۔ حالیہ کارروائیوں میں اسرائیلی افواج نے جنوبی غزہ کے شہر رفح سمیت دیگر اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور لاکھوں فلسطینیوں کو چھوٹے علاقوں میں محدود کر دیا ہے۔
آئی ڈی ایف نے وضاحت کی ہے کہ اس بار وہ "صاف کیے گئے علاقوں” سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے وسطی نیٹرازیم میں ایک بڑی راہداری اور شمال میں شجاعیہ تک بفر زون قائم کر لیا ہے۔
غزہ، اجتماعی قبر: انسانی بحران شدت اختیار کر گیا
بین الاقوامی طبی تنظیم ایم ایس ایف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ اب فلسطینیوں اور ان کی مدد کرنے والوں کے لیے ایک "اجتماعی قبر” بن چکا ہے۔ طبی عملے کے مطابق اسرائیلی حملوں میں شمالی غزہ میں 13 افراد جبکہ رفح میں گھروں کی تباہی کے دوران کئی افراد شہید ہوئے۔
ایک فضائی حملے میں معروف مصنفہ اور فوٹوگرافر فاطمہ حسونا بھی شہید ہو گئیں، جنہوں نے جنگ کے دوران غزہ کی عوام کی جدوجہد کو تصویروں اور تحریروں کے ذریعے اجاگر کیا تھا۔
خوراک کی قلت اور امداد کی بندش
اسرائیلی وزیر دفاع نے واضح کیا کہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی بند رکھی جائے گی۔ 2 مارچ سے امداد کی بندش کے باعث صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ الجزیرہ نے اسرائیلی نشریاتی ادارے "کان” کے حوالے سے خبر دی ہے کہ غزہ میں صرف ایک ماہ کی خوراک کا ذخیرہ باقی ہے۔ اسرائیلی فوج اس بات پر غور کر رہی ہے کہ کس طرح امداد کو حماس کے بغیر عوام تک پہنچایا جائے، جس کے لیے بین الاقوامی تنظیموں کے تحت محفوظ مراکز قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔