چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شیخ امتیاز اور حافظ فرحت عباس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ محض سازش کے الزام پر کسی فرد کو جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔
اسلام آباد میں پاکستان-جی سی سی انسداد منشیات کانفرنس کا انعقاد
جسٹس شکیل احمد نے بھی کہا کہ سازش، اعانت اور اکسانے کے الزامات کے لیے ٹھوس شواہد درکار ہوتے ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا شیخ امتیاز کی اکسانے کی کوئی ویڈیو موجود ہے؟ جس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ پیمرا کا ریکارڈ اور ویڈیو کا فرانزک موجود ہے۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ جو ویڈیو پیش کی گئی ہے وہ درحقیقت آڈیو ہے۔ عدالت نے کہا کہ وائس میچنگ ٹیسٹ کرایا جائے، اگر ملزم تفتیشی کے سامنے پیش نہ ہو تو گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ عدالت نے شیخ امتیاز کی ضمانت کنفرم کر دی جبکہ حافظ فرحت عباس کی درخواست پر سماعت اگلے ہفتے ہو گی۔
سپریم کورٹ 9 مئی کے ٹرائل کی مانیٹرنگ نہیں کرے گی: چیف جسٹس
دریں اثنا، سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ وہ 9 مئی کیسز کے ٹرائل کی مانیٹرنگ نہیں کرے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا کام قانون کے مطابق احکامات دینا ہے، ٹرائل کی نگرانی متعلقہ ہائیکورٹ اور انتظامی جج کا معاملہ ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے اعتراض اٹھایا کہ چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم غیر حقیقت پسندانہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ انسداد دہشتگردی عدالت روزانہ سماعت کی پابند ہے۔
اعجاز چوہدری کی ضمانت کیس: چیف جسٹس نے ویڈیو شواہد کا مطالبہ کر دیا
اعجاز چوہدری کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کوئی واضح ثبوت موجود ہے جس سے اکسانے کی تصدیق ہو سکے؟۔ ڈی ایس پی لاہور نے پیمرا کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔
وکیل نے بتایا کہ یہ شواہد دراصل ٹی وی انٹرویوز پر مبنی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا موکل نوجوانوں کو اکسا رہا تھا۔ جسٹس شفیع صدیقی نے کہا کہ ایک انٹرویو 17 مئی اور ایک آڈیو 10 مئی کی ہے، جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ اگر اکسانے کا الزام ہے تو 9 مئی یا اس سے پہلے کی شواہد پیش کریں۔
عدالت نے پولیس کو مزید شواہد پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔