ایس بی سی اے میں غیرقانونی بحالی اور تبادلوں کا معاملہ، علی مہدی پر اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام

ریٹائرمنٹ لے کر غیرقانونی طور پر دوبارہ بحال ہونے والا ریجنل ڈایرکٹر ایس بی سی اے علی مہدی ۔۔ وہ گل کھلارہا ہے جو اس کا مینڈیٹ ہی نہیں ۔۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ اس کے دستخط سے اہم تعیناتیوں اور تبادلوں کے پروانے جاری ہورہے ہیں ۔۔

نیو کراچی ٹاؤن میں عوامی شکایات پر فوری ایکشن، تباہ حال لائنوں کی مرمت کا آغاز

دوسری طرف سندھ حکومت کے ذمہ دار اس کھلی لاقانونیت پر پراسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔۔ یہ سارا معاملہ ہے کیا ۔۔ کیا اندھیر نگری مچی ہے ۔ اس پر ویڈیو میں آگے چل کر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے ۔۔۔ دوستو ۔۔۔سب سے پہلے ہم آپ کو علی مہدی کی تازہ ترین واردات کے بارے میں بتاتے ہیں ۔۔ دوستو ریجنل ڈائریکٹر علی مہدی کے دستخط سے جاری نوٹی فیکیشن کے مطابق آرکٹیکٹ راشدہ بلوچ جو گریڈ اٹھارہ کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں اور تعیناتی کی منتظر تھیں انہیں فوری طور پر ڈپٹی ڈائریکٹر آرکیٹکچر اینڈ پلاننگ لگادیا گیا اسی طرح نوٹی فیکشن کے مطابق دو ڈپٹی ڈائریکٹرز کو ہٹا دیا گیا۔۔۔۔ اسی طرح انجینرعاصم حسین صدیقی کو جو اسٹنٹ ڈائریکٹر ناظم آباد ایک اور چار فرائض انجام دے رہے تھے ان کا تبادلہ کرکے انہیں فوری طور اسٹنٹ ڈائریکٹر ماری پور 2 لگادیا گیا ہے ۔ تعیناتی کے منتظر اسٹنٹ انجنییر انجینر گنیش راج کو اسٹنٹ ڈائریکٹر صدر 4 یوسی 6 لگادیا گیا ہے ۔

یہ ٹرانسفر ۔۔ پوسٹنگ قانونی طریقے سے کی جاتیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا تھا ۔ ڈسٹرکٹ کے ڈائریکٹرز یہ تبادلے اور تقرریاں کرنے کے پابند ہیں لیکن علی مہدی نے کس حیثیت میں یہ فرائض انجام دیے ۔۔ اس پر بڑے سوالیہ نشانات ہیں ۔۔ یہ سارا کام غیرقانونی طریقے سے ہوا ہے ایس بی سی اے ک زرائع کے مطابق علی مہدی بلڈرز کو فون کر کے پرانی تاریخوں میں فائلز کی اپروول کروانے کی کوشش کر رہا ہے اور ہو سکتا ہے کچھ فائلز اپروو کروا بھی لی ہوں،،، وزیر بلدیات اور چیف سیکریٹری صاحب ایک ڈایرکٹر خود ساختہ ڈی جی بن کے پاور کو مس یوز کر رہا ہے اور قانون کی دھجیاں ارا رہا ہے جب کے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں

سات اگست 2024 کو ایس بی سی اے کے نوٹی فیکشن کےمطابق علی مہدی کو جو ریجنل ڈائریکٹر حیدرآباد گریڈ انیس تھے انہیں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل ایس بی سی اے گریڈ بیس کا ایڈیشنل چارج دیا گیا ذرائع کے مطابق علی مہدی ہیڈآفس سے متعلق اختیارات اورامور کر دھڑلے سے اپنے مفاد کےلئے استعمال کررہے ہیں ۔اور اب حد تو یہ ہوگئی ہے کہ وہ غیرقانونی طور پر ضروری نوٹی فیکیشن بھی اے ڈی جی کی حیثیت سے نکال رہے ہیں

علی مہدی جو کچھ کررہا ہے وہ اس کا مینڈیٹ ہی نہیں ہے یعنی بطور ریجنل ڈٓائریکٹروہ مجاز ہی نہیں ہے کہ ہیڈآفس کے معاملات میں عمل دخل دیں یا ہیڈ آفس کی وساطت سے کوئی بات کرے ۔ایس بی سی اے کے قواعد وضوبط کے مطابق گریڈ انیس کے ریجنل ڈائریکٹرکا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ریجن کو دیکھیں یعنی حیدرآباد، نوابشاہ، میرپورخاص، لاڑکانہ اور سکھر کے جوامور ہیں وہ ریجنل ڈٓائریکٹر ہینڈل کرتا ہے۔
۔
دوستو آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو بتائیں کہ 2020 میں ایس بی سی اے سے ریٹائرمنٹ لینے والے علی مہدی نے سلیم رضا کے دور میں بحالی کی اپیل کی جسے پہلے مسترد کردیاگیا ۔۔ بعدازان سلیم رضا نے ایک غیرقانونی آرڈر کے تحت علی مہدی کو بحال کیا ۔ یہ قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔۔ سلیم رضانے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اس کو تعینات کیا ۔۔ یہاں ایک اور پہلو قابل غور ہے کہ بیس گریڈ کا افسر کسی بھی قانون کے تحت انیس گریڈ کے افسر کو بحال نہیں کرسکتا ۔۔ اس وقت ڈائریکٹرایڈمن نے علی مہدی کے غیرقانونی اقدامات تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا ۔ ڈائریکٹر ایڈمن علی اسد اور ڈپٹی ڈائریکٹرایڈمن گل زمان نے
بھی ہاتھ کھڑے کردیے ۔۔ لیکن علی مہدی باز نہ آیا نے اس ایک اسٹنٹ ڈائریکٹر سے لیٹر سائن کروایا جس کی سرے سے کوئی قانونی حیثیت نہیں

قانون کے مطابق اپنی منشا سے ریٹائرمنٹ لینے والے سرکاری افسر کی بحالی ممکن نہیں ۔۔ ایس اینڈ ڈی اے جی کا یہ نوٹی فیکشن آپ اسکرین پر دیکھ سکتے ہیں جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ فنانس اور لا ڈپارٹمنٹ سے مشاورت کے بعد یہ طے کیا گیا ہے کہ قانون کے مطابق ایک سرکاری ملازم کا ریٹائرمنٹ اور پنشن کا استحقاق اسی صورت برقرار رہ سکتا ہے جب وہ پچیس سال کی سروس کی میعاد مکمل کرتا ہے اگرکوئی ملازم پچیس سال کی مدت پوری ہونے سے قبل ریٹائرمنٹ لیتا ہےتو وہ پنشن کا مجاز نہیں ہوگا ۔ اس نوٹی فیکشن میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر کوئی ملازم تحریری طور پر ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دے تو اس کی یہ درخواست حتمی تصور ہوگی اور وہ اسے واپس نہیں لے سکتا نہ ہی اس میں کوئی ترمیم کرسکتا

لیکن دوستو ۔۔۔۔۔۔ علی مہدی ایس بی سی اے کے وہ انوکھے لاڈلے ہیں جنہوں نے کھیلن کو چاند مانگا اور مزے کی بات یہ کہ اسے یہ چاند دیا بھی گیا ۔۔ سلیم رضا کھوڑو کے دور میں اس کے استعفے کا لیٹر غیرقانونی طور پر بحال کیا گیا ۔۔۔ سارے قاعدے قانون بالائے طاق اس لئے رکھے گئے کہ یہ سلیم رضا کھوڑو کا بندہ خاص تھا ۔ ۔ کوئی کمیٹی نہیں بنی کسی سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی ۔۔ اس کے بعد لوٹ مار کا ایک گھناونا دور شروع ہوا ۔۔ذرائع کے مطابق دونوں نےراتوں رات بے شمار غیرقانونی تعمیرات کے اپروول دیے ۔۔ اسحاق کھوڑو اور علی مہدی دونوں انکوائریز سے بچے ہوئے ہیں ۔۔ ذرائع کے مطابق اسحاق کھوڑو اسے لانے کےلئے پورا زور لگارہا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسحاق کھوڑو سے پہلے ہی اسحاق کھوڑو کا سسٹم لانچ ہوچکا ہے

اینٹی کرپشن نے جنوری 2022 میں نسلہ ٹاور کیس میں 21 ملزمان کو نامزد کیا ۔ ان میں اس وقت کے ایس بی سی اے کے ڈائریکٹرجنرل منظور قادرکاکا۔۔ اس وقت کے ای ڈی اشکر داور ۔۔ اور سابق ڈائریکٹر علی مہدی کاظمی بھی نامزد تھے ۔۔ سوال یہ ہے کہ علی مہدی بھی نسلا ٹاور کی ایف آئی آر میں شامل تھا ۔ اسے کس طرح اس ایف آئی آر سے کلین چٹ ملی ؟ اس کے خلاف نہ کوئی انکوائری ہوئی نہ کوئی پوچھ تاچھ ۔۔ جو ایف آئی آر تھی اس میں اسے ضمانت مل گئی حالانکہ یہ قصور وار تھا

وزیراعلی ٰ سندھ ۔۔۔ وزیربلدیات سعیدغنی کو اس سارے معاملے پربطور خاص توجہ دینا ہوگی ۔۔ سندھ حکومت کی اس سارے معاملے پر پراسرار خاموشی بہت سی بدگمانیاں پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔۔ سندھ کے سب سے کماؤ پوت اور اہم ادارے ۔۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں اس طرح کی لاقانونیت اور قانون سے کھلواڑ کسی طور پر قابل نہیں ہوسکتا

62 / 100

One thought on “ایس بی سی اے میں غیرقانونی بحالی اور تبادلوں کا معاملہ، علی مہدی پر اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!