نیشنل سائبر کرائم ایجنسی نے لاہور میں وفاقی ادارے کی خاتون عہدیدار کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ مقدمہ سرکاری مدعیت میں درج کیا گیا، جس میں پیکا ایکٹ سمیت دیگر دفعات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا قومی اسمبلی میں بھارتی جارحیت پر اظہار خیال، یوم دفاع وطن کے موقع پر ملین مارچ کا اعلان
مقدمے کے مطابق، ملزمہ وفاقی محکمے میں اعلیٰ عہدیدار ہے، اور پاک بھارت کشیدگی کے دوران اُس نے واٹس ایپ گروپ میں لوگوں کو قومی اداروں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔ مقدمے میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ملزمہ کے موبائل فون میں واٹس ایپ چیٹس میں پاکستان آرمی کے خلاف توہین آمیز پیغامات پائے گئے۔
پیکا ایکٹ میں حالیہ ترمیم کے تحت ایک نئی شق، سیکشن 26 (اے)، شامل کی گئی ہے، جس میں آن لائن جھوٹی معلومات پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس شق کے تحت اگر کوئی فرد جان بوجھ کر ایسی جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے جو عوام میں خوف یا گھبراہٹ پیدا کرے، تو اُسے تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ، پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے ایک نئی ایجنسی ’نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی‘ (این سی سی آئی اے) قائم کی گئی ہے، جو سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔
بل میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ (ایس ایم پی آر اے) قائم کی جائے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، معیارات کے تعین اور صارفین کے حقوق کی حفاظت کرے گی۔