اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ 80 اور 90 کی دہائی میں پاکستان نے کوئی جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں لڑی، بلکہ یہ اس وقت کے حکمرانوں کے ذاتی مفادات کی جنگیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جنگیں لڑیں۔
سندھ میں صحت کے اشاریوں کا جائزہ، وزیراعلیٰ کی اصلاحات اور نئی ہدایات
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے اور فرنٹ لائن پر لڑ رہا ہے۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ امریکا کا افغانستان میں چھوڑا گیا جدید اسلحہ ہے، جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت کے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ مفاہمت تب ہوتی ہے جب دوسرا فریق حملہ آور نہ ہو، لیکن جب حملہ آور ہو تو مزاحمت ضروری ہوتی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ذمہ داری لینی چاہیے، پاراچنار کی موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے۔
عمران خان کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہاں خطوط لکھنے کی روایت تھی، اب اسے بین الاقوامی درجہ دے دیا گیا ہے، لیکن ان خطوط کا انجام وہی ہوگا جو پہلے ہوتا رہا ہے۔
طالبان کو پاکستان میں بسانے کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ اس میں صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض کا بھی کردار تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان تینوں کے درمیان مفادات کا ایک سمجھوتا تھا اور اسی بنیاد پر طالبان کو پاکستان میں بسایا گیا۔
پرویز خٹک کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں انہیں خیبرپختونخوا سے نکال کر وفاق میں شامل کیا گیا، جبکہ صوبے میں بدعنوانی جاری رہی اور آج بھی ہو رہی ہے۔