پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیرِ صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں وزارت بین الصوبائی رابطہ، وزارت داخلہ، سی ڈی اے، ایف سی خیبرپختونخوا، سندھ رینجرز اور جی بی اسکاؤٹس کے آڈٹ پیراز زیرِ غور آئے۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں، الیکشن کمیشن نے حکومتی تاخیر پر برہمی کا اظہار
وزارت بین الصوبائی رابطہ میں مالی بے ضابطگیاں
آڈٹ حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ سال 23-2022 میں ایک کروڑ 30 لاکھ روپے ایک غیر منسلک کھیلوں کی تنظیم کو غیر مجاز گرانٹ کے طور پر دیے گئے، حالانکہ یہ تنظیم کسی بھی اسپورٹس باڈی کے طور پر رجسٹرڈ نہیں۔ سیکریٹری وزارت نے بتایا کہ اس معاملے میں انکوائری مکمل کرلی گئی ہے اور ذمے داران کا تعین کیا جا چکا ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے 15 دن میں ریکوری کرنے کی ہدایت دی۔
گن اینڈ کنٹری کلب میں غیر قانونی اسلحہ اور مالی بے ضابطگیاں
اجلاس میں گن اینڈ کنٹری کلب کی جانب سے بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔ کمیٹی رکن سید حسین طارق نے سوال اٹھایا کہ "ایک حکومتی ادارہ بغیر لائسنس کے کیسے اسلحہ خرید سکتا ہے؟” جس پر کمیٹی ارکان نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرمین پی اے سی نے معاملے کی ایک ماہ میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت دی۔
اس کے علاوہ، 48 کروڑ روپے کا اضافی بیلنس اسپورٹس انڈوومنٹ فنڈ میں ڈیپازٹ نہ کرنے کا آڈٹ پیرا بھی زیرِ غور آیا، جس پر چیئرمین پی اے سی نے کلب کا مکمل آڈٹ کرانے کا حکم دیا اور ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
سی ڈی اے کی غیر شفاف نیلامی اور مالی بے قاعدگیاں
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سی ڈی اے کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 24-2023 کا جائزہ لیا، جس میں 29 کمرشل پلاٹس کی غیر شفاف نیلامی کا انکشاف ہوا۔ آڈٹ حکام کے مطابق، سی ڈی اے بورڈ نے 37 ارب سے زائد مالیت کے 29 کمرشل پلاٹس کی نیلامی کی منظوری دی، لیکن قانونی پیچیدگیوں کو نظرانداز کیا۔ چیئرمین پی اے سی نے سی ڈی اے سے 6 ماہ میں فنانشل اسٹیٹمنٹ تیار کرنے کی ہدایت دی۔
اجلاس میں انکشاف ہوا کہ سی ڈی اے نے آج تک اپنی فنانشل اسٹیٹمنٹ کبھی تیار نہیں کی۔
وزارت داخلہ: زائد قیمت پر خریداری سے قومی خزانے کو نقصان
وزارت داخلہ کے ذیلی اداروں میں بے ضابطگیوں کا جائزہ لیا گیا، جس میں یہ انکشاف ہوا کہ زائد قیمت پر یونیفارم کی خریداری سے قومی خزانے کو 4 کروڑ 61 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔ آئی جی ایف سی خیبرپختونخوا کی اجلاس میں عدم شرکت پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور ایک ماہ میں ریکوری کرنے اور ذمے داران کے خلاف کارروائی کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔
اسی طرح، ایف سی خیبرپختونخوا میں غیر شفاف کیمروں کی خریداری سے قومی خزانے کو 3 کروڑ سے زائد نقصان پہنچا، جس پر پی اے سی نے متعلقہ تمام آڈٹ پیراز کو یکجا کر کے ریکوری کرنے کی ہدایت دی۔
دیگر آڈٹ انکشافات
جی بی اسکاؤٹس میں 5 کروڑ 30 لاکھ سے زائد کی طبی آلات کی غیر قانونی خریداری کا آڈٹ پیرا بھی زیرِ غور آیا، تاہم ڈی جی کی عدم موجودگی پر کمیٹی نے ناراضگی کا اظہار کیا۔
ڈی جی رینجرز سندھ کی اجلاس میں عدم حاضری پر کمیٹی نے سندھ رینجرز کے تمام آڈٹ پیراز مؤخر کر دیے۔
بھارہ کہو بائی پاس کی غیر قانونی تعمیر
بھارہ کہو بائی پاس کے ٹھیکے میں بے ضابطگیوں کا معاملہ بھی اجلاس میں زیربحث آیا، آڈٹ حکام نے بتایا کہ پروجیکٹ کی لاگت غیر شفاف طریقے سے بڑھا دی گئی اور کام این ایل سی کو بغیر کسی مسابقتی ٹینڈر کے دیا گیا۔
آڈٹ حکام کے مطابق، "یہ بائی پاس چار ماہ میں مکمل ہونا تھا، لیکن 11 ماہ گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہوا۔” چیئرمین پی اے سی نے سی ڈی اے سے ایک ماہ میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
نتیجہ:
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مختلف سرکاری اداروں میں مالی بے ضابطگیوں اور غیر شفافیت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور متعلقہ محکموں کو ریکوریز اور انکوائری رپورٹس پیش کرنے کے سخت احکامات جاری کیے۔