سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کی تینوں اعتراضات مسترد کر دیے، جب کہ کیس کی براہ راست نشریات کی درخواست منظور کر لی گئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر بھارت کو حالیہ جھڑپ میں مؤثر جواب پاکستانی افواج نے بھرپور دفاع کیا
سماعت کے آغاز پر متاثرہ خواتین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 191 اے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد 1980 کے رولز کا اطلاق اب نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد آئینی بینچ کو نظرثانی کیسز سننے کا اختیار حاصل ہے، اور اب پرانا بینچ نظرثانی کا مجاز نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ بینچ دراصل 13 رکنی ہے اور اکثریتی 7 ججز فیصلہ کریں گے۔ براہ راست نشریات کے حوالے سے بھی ان کی جانب سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا، بلکہ انہوں نے کہا کہ یہ عدالت کی صوابدید ہے۔
دورانِ سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اعتراضات اٹھائے اور 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے سے قبل کیس ملتوی کرنے کی استدعا کی، جسے بینچ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کسی بھی کیس کی سماعت کا تعین خود کرتی ہے، نہ کہ کسی فریق کی خواہش پر۔
وقفے کے بعد جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بینچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی تینوں اعتراضات کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا، جب کہ کیس کی لائیو اسٹریمنگ کی اجازت دے دی گئی۔ عدالت نے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو نشریات کے انتظامات کرنے کا حکم دیا اور سماعت 26 مئی تک ملتوی کر دی۔