ریاض: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد اپنا پہلا بڑا غیر ملکی دورہ مشرق وسطیٰ سے شروع کر دیا ہے، جس کا پہلا پڑاؤ سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض رہا۔ صدر ٹرمپ کی ریاض آمد پر سعودی ولی عہد اور طاقتور عملی حکمران محمد بن سلمان نے ہوائی اڈے پر ان کا پرتپاک استقبال کیا، جہاں انہیں سعودی روایات کے مطابق قہوہ بھی پیش کیا گیا۔
کم آمدنی والوں کے لیے خوشخبری: حکومت کا 2 لاکھ سستے گھروں کا منصوبہ تیار، مارگیج فنانسنگ بھی زیر غور
امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ دورہ چار روز پر محیط ہے جس میں وہ سعودی عرب کے بعد قطر اور متحدہ عرب امارات بھی جائیں گے۔ اس دورے کا بنیادی مقصد تیل سے مالا مال اس خطے کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا، تجارتی معاہدوں کو حتمی شکل دینا اور نئی سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنا ہے۔
ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ آمد ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ کے اندر سیکیورٹی اداروں میں ان کے اس دورے کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ امریکی دفاعی اور خفیہ اداروں کے موجودہ و سابق اہلکاروں نے قطر کی جانب سے صدر ٹرمپ کو ایک پرتعیش طیارہ تحفے میں دینے کی پیشکش پر سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہ طیارہ مبینہ طور پر صدر ٹرمپ کے ذاتی استعمال کے لیے ہوگا، جو ممکنہ طور پر مفادات کے تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔
ریاض میں قیام کے دوران صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان کئی اہم معاملات پر بات چیت متوقع ہے۔ ان میں ایران کے متنازع جوہری پروگرام کو محدود کرنے کی امریکی کوششیں، غزہ کی حالیہ جنگ کا خاتمہ، خطے میں توانائی کے استحکام کے لیے تیل کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے اقدامات، اور مجموعی علاقائی سلامتی کے چیلنجز شامل ہیں۔
اس موقع پر دونوں رہنماؤں کی ملاقات کو خطے میں جاری کشیدگی، ایران کی سرگرمیوں، اور اسرائیل-فلسطین تنازعے کے پس منظر میں خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اس دورے سے امریکہ اور خلیجی ریاستوں کے درمیان باہمی تعلقات میں ایک نیا موڑ آئے گا، خصوصاً ایسے وقت میں جب خطے میں چین اور روس کا اثر بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی میں مشرق وسطیٰ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے، اور سعودی عرب کے ساتھ عسکری اور تجارتی تعلقات اس پالیسی کا محور رہے ہیں۔ تاہم قطر اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگیاں بھی موجود ہیں، جن کا حل صدر ٹرمپ کے موجودہ دورے کے دوران تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے میزبانوں سے دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے، علاقائی استحکام کے لیے مشترکہ اقدامات، اور امریکہ کی تزویراتی موجودگی کو مضبوط بنانے پر بات کریں گے۔