افغانستان میں طالبان کے زیر قبضہ 5 لاکھ ہتھیار لاپتہ، بی بی سی کا انکشاف

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ طالبان کے قبضے میں آنے والے 5 لاکھ ہتھیار یا تو ضائع ہو چکے ہیں، فروخت کیے جا چکے ہیں یا عسکریت پسند گروہوں کو اسمگل کیے جا چکے ہیں۔ ایک سابق افغان اہلکار نے بتایا کہ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد، انہوں نے تقریباً 10 لاکھ ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے حلقہ پی پی 52 سیالکوٹ میں ضمنی انتخاب کا شیڈول جاری کر دیا

جب طالبان نے ملک پر پیش قدمی کی تو افغان فوج نے بغیر مزاحمت کے کئی علاقوں کو چھوڑ دیا، اور امریکی افواج بھی اپنا سامان چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئیں۔ ان میں جدید امریکی ہتھیار جیسے M4 اور M16 رائفلز بھی شامل تھیں، جنہیں بعد ازاں طالبان نے حاصل کر لیا۔

بی بی سی کے مطابق، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پابندیوں کی کمیٹی کے ایک بند اجلاس میں طالبان نے اعتراف کیا کہ ان کے قبضے میں آئے ہتھیاروں میں سے آدھے اب لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ان ہتھیاروں تک تحریک طالبان پاکستان، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، اور انصار اللہ جیسی القاعدہ سے منسلک تنظیمیں رسائی حاصل کر رہی ہیں یا انہیں بلیک مارکیٹ سے خرید رہی ہیں۔

طالبان کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرات نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ تمام ہتھیار محفوظ طریقے سے ذخیرہ کیے گئے ہیں، اور اسمگلنگ یا تباہی کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے مقامی کمانڈروں کو ضبط شدہ ہتھیاروں کا 20 فیصد رکھنے کی اجازت دی ہے، جس سے بلیک مارکیٹ کو فروغ ملا۔

قندھار کے ایک سابق صحافی نے انکشاف کیا کہ پہلے کھلے عام ہتھیاروں کی مارکیٹ تھی، جو اب واٹس ایپ کے ذریعے زیر زمین منتقل ہو چکی ہے۔ امریکی ادارہ SIGAR بھی ہتھیاروں کے مکمل ریکارڈ میں ناکام رہا ہے، اور محکمہ دفاع کے ٹریکنگ سسٹمز میں سنگین خامیاں بتائی گئی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ افغانستان میں 85 ارب ڈالر کے ہتھیار چھوڑ دیے گئے ہیں، جنہیں طالبان اب استعمال کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ضروری ہوا تو وہ ان ہتھیاروں کو واپس لینے کے لیے ادائیگی کرنے کو بھی تیار ہیں۔ تاہم، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ان دعوؤں کی تردید کرتا ہے۔

طالبان اکثر امریکی ہتھیاروں کی پریڈ کرتے ہیں اور انہیں اپنی فتح کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ جدید مشینری جیسے بلیک ہاک ہیلی کاپٹر طالبان کے لیے چلانا مشکل ہے، لیکن وہ ہمویز اور ہلکے ہتھیار مؤثر طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔

سابق SIGAR سربراہ جان سوپکو کا کہنا ہے کہ ان ہتھیاروں کی واپسی کی کوشش بے معنی ہوگی، کیونکہ اس کی لاگت فائدے سے کہیں زیادہ ہوگی۔ اس دوران خطے میں ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور عسکری گروہوں کی بڑھتی ہوئی رسائی عالمی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

One thought on “افغانستان میں طالبان کے زیر قبضہ 5 لاکھ ہتھیار لاپتہ، بی بی سی کا انکشاف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!