تحریر: سیدہ تحسین عابدی، ترجمان حکومت سندھ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو سیاست سے بڑھ کر ایک نظریہ، ایک انقلاب، اور ایک عوامی تحریک کی علامت بن چکے ہیں۔ انہی میں سے ایک ناقابلِ فراموش نام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا ہے، جنہوں نے پاکستانی عوام کو نہ صرف ایک سیاسی شعور دیا بلکہ انہیں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا بھی سکھایا۔
وقف ترمیمی بل 2024 بھارتی حکومت اور اپوزیشن میں شدید اختلافات
ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے جمہوریت، مساوات اور عوامی حقوق کے لیے ہر قسم کی قربانی دی، حتیٰ کہ اپنی جان بھی نچھاور کر دی مگر آمریت اور جبر کے سامنے جھکنا گوارا نہ کیا۔ آج، ان کی 46ویں برسی پر، ہمیں نہ صرف ان کی قربانیوں کو یاد کرنا ہے بلکہ اس بات کا بھی جائزہ لینا ہے کہ ان کے مشن کو آج کس طرح آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو – سیاست میں ایک انقلاب
ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم برکلے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر سیاست میں قدم رکھا۔ ایوب خان کے دور میں وہ وزیر خارجہ کے طور پر نمایاں ہوئے، مگر جلد ہی انہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کی اور اقتدار چھوڑ کر عوام کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) کی بنیاد رکھی اور عوام کو پہلی بار ایک ایسا نعرہ دیا جو آج بھی پاکستان کے محروم طبقات کی آواز ہے:
“روٹی، کپڑا اور مکان” – ایک سیاسی نعرہ نہیں، عوامی انقلاب کا پیغام!
1970 کے انتخابات میں عوام نے ان پر بھرپور اعتماد کیا، اور انہوں نے بطور وزیر اعظم ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے کئی انقلابی اقدامات کیے۔
بھٹو کے انقلابی اقدامات
1973 کا آئین – پاکستان کا جمہوری ستون
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے پہلے متفقہ آئین 1973 کی تشکیل میں قائدانہ کردار ادا کیا، جو آج بھی ملک کے جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔
ایٹمی پروگرام – پاکستان کا ناقابلِ تسخیر دفاع
بھٹو نے کہا تھا:
“ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے!”
ان کی قیادت میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع ہوا، جو آج ملک کی دفاعی خودمختاری کا ضامن ہے۔
عوامی حقوق اور معاشی اصلاحات
بھٹو نے مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے کئی اصلاحات کیں، صنعتوں کی نیشنلائزیشن کی، زرعی اصلاحات متعارف کرائیں، اور پسے ہوئے طبقات کو طاقتور بنانے کا آغاز کیا۔
1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس – پاکستان کی عالمی پہچان
بھٹو نے 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی، جس نے پاکستان کو مسلم دنیا میں ایک قائدانہ حیثیت دلا دی۔
شہادت – ایک عوامی رہنما کو چھیننے کی سازش
ذوالفقار علی بھٹو عوام کے دلوں میں بستے تھے، یہی وجہ تھی کہ آمریت نے انہیں راستے سے ہٹانے کے لیے سازش تیار کی۔
4 اپریل 1979 کو انہیں عدالتی قتل کا نشانہ بنایا گیا، لیکن وہ دنیا سے جانے کے بعد بھی عوام کے دلوں سے نہ نکل سکے۔ بھٹو کی پھانسی تاریخ کے ان سیاہ ترین دنوں میں شمار ہوتی ہے جب عوام کے سب سے بڑے لیڈر کو ایک جھوٹے مقدمے میں شہید کر دیا گیا۔
بھٹو کی میراث – بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نیا عہد
بھٹو مخالف قوتوں نے سمجھا کہ ان کی شہادت کے بعد بھٹو ازم ختم ہو جائے گا، مگر شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کا مشن جاری رکھا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔
آج بلاول بھٹو زرداری اسی مشن کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری – ایک نوجوان، بہادر اور وژنری لیڈر
بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ اور نانا کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیشہ جمہوریت، مساوات اور عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے۔ وہ پاکستان میں ایک نئی سیاسی تاریخ رقم کر رہے ہیں، جس میں نوجوانوں کی شمولیت، انسانی حقوق کا تحفظ، اور معیشت کی بحالی ان کے مشن کے بنیادی نکات ہیں۔
ان کی قائدانہ صلاحیتوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کے سیاسی افق پر ایک نئے دور کے معمار کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
بھٹو کا مشن – جاری رہے گا!
آج، جب ہم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی منا رہے ہیں، ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ:
•ہم جمہوریت کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔
•ہم ہر مظلوم کی آواز بنیں گے۔
•ہم پاکستان کو وہی فلاحی ریاست بنائیں گے جس کا خواب بھٹو نے دیکھا تھا۔
کیونکہ قائد شہید ہو سکتے ہیں، مگر ان کا نظریہ کبھی نہیں مرتا!