غیر ملکی اور بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نریندر مودی حکومت نے وقف (ترمیمی) بل 2024 کو لوک سبھا میں پیش کیا، جس میں موجودہ قانون میں درجنوں ترامیم کی گئی ہیں۔ بھارتی حکومت کے مطابق اس بل کا مقصد وقف کے انتظام میں شفافیت لانا ہے، جبکہ اپوزیشن اور مسلم گروپوں نے اسے مسلمانوں کے آئینی حقوق پر حملہ قرار دیا ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان: وزیراعظم شہباز شریف کا قوم سے خطاب
حکومت کا مؤقف
بھارتی وزیر اقلیتی امور کرن رجیجو نے کہا کہ اس بل کا مقصد مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں، بلکہ پچھلی حکومتوں کے ادھورے کاموں کو مکمل کرنا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وقف بورڈ صرف املاک کی نگرانی کرے گا، انتظام نہیں سنبھالے گا۔ ان کے مطابق، 2004 میں وقف جائیدادوں کی تعداد 4,90,000 تھی، جو اب بڑھ کر 8,72,000 ہو چکی ہے۔
اپوزیشن اور مسلم تنظیموں کا ردعمل
اپوزیشن جماعتیں اور مسلم گروہ اس بل کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ مودی حکومت کے "تقسیمی ایجنڈے” کو شکست دینے کے لیے تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں۔
کانگریس کی رہنما ماہوا موئترا نے اسے "بھارتی جمہوریت کا سیاہ دن” قرار دیا اور اعتراض اٹھایا کہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت ثابت کرنے کی شرط رکھنا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے مسلمان اپنی عبادات اور رسومات کے لیے زمین خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور یہ قانون ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔
مسلم رہنماؤں کی حمایت
برعکس، آل انڈیا سجادہ نشین کونسل کے سربراہ ناصرالدین چشتی نے اس بل کو "بھارتی جمہوریت کی فتح” قرار دیا اور وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر کرن رجیجو کو مبارکباد دی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے مسلمانوں کے لیے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے اور امید ظاہر کی کہ مزید فلاحی اسکیمیں بھی متعارف کرائی جائیں گی۔
انڈین صوفی فاؤنڈیشن کے صدر کشش وارثی نے بھی بل کا خیر مقدم کرتے ہوئے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ بل کو اچھی طرح سمجھیں کیونکہ یہ مسلمانوں کے خلاف نہیں، بلکہ ان کی بہتری کے لیے ہے۔
بل کی آئندہ کی صورتحال
یہ بل لوک سبھا میں منظور ہو چکا ہے اور اب مزید بحث اور حتمی منظوری کے لیے راجیا سبھا میں بھیجا جائے گا۔