مولانا غلام حیدر جنڈالوی کشمیر کی تحریکِ آزادی اور پاکستان کی تحریکِ آزادی کے عظیم رہنما تھے، جو ڈوگرہ سامراج کے خلاف جدوجہد کا ایک روشن استعارہ ہیں۔
1940 میں مولانا نے مہاراجہ ہری سنگھ کے ذریعہ پونچھ کی خود مختاری ختم کرنے کے فیصلے کے خلاف کشمیری قوم کو متحد کر کے ایک زبردست تحریک شروع کی۔ اس تحریک نے ڈوگرہ حکومت کو ہلا کر رکھ دیا، جس پر مولانا کو عوامی شعور بیدار کرنے کے جرم میں گرفتار کر کے ریاست بدر کر دیا گیا۔
مولانا غلام حیدر جنڈالوی کو قراردادِ پاکستان کے اجلاس میں قائداعظم محمد علی جناح کی خصوصی دعوت پر شرکت کا اعزاز ملا، جہاں انہوں نے کشمیری وفد کی قیادت کی۔ مولانا کی ولولہ انگیز تقریر نے قائداعظم کو اتنا متاثر کیا کہ ان کی تقریر کے وقت کی پابندی ختم کر دی گئی۔
مولانا نے قائداعظم کے ساتھ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا وعدہ کیا، جو آج بھی کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی بنیاد اور مشعلِ راہ ہے۔
مولانا غلام حیدر جنڈالوی کی آخری آرام گاہ راولاکوٹ کے قریب جنڈالی کی بلند ترین چوٹی پر ہے، جو ان کی جدوجہد اور قربانیوں کی یادگار ہے۔
یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل مولانا کی خدمات سے ناواقف ہے۔ ان کی قربانیوں کو نصابِ تعلیم، سوشل میڈیا، اور عوامی آگاہی مہمات کے ذریعے اجاگر کرنا ضروری ہے تاکہ نئی نسل ان کے مشن سے روشناس ہو سکے۔