رپورٹ کے مطابق، ایلون مسک کا ایک حالیہ اشارہ نازی سلامی سے ملتا جلتا تھا، جسے سیگ ہیل سلام کہا جاتا ہے، جو نازی جرمنی میں ایڈولف ہٹلر کی وفاداری کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ یہ اشارہ واشنگٹن کے کیپٹل ون ایرینا میں نو منتخب صدر کے حامیوں کی ریلی کے دوران مسک نے اپنی دائیں ہاتھ سے اپنے سینے کے بائیں حصے کو تھپتھپاتے ہوئے دیا تھا۔ اس کے بعد مسک نے اپنا بازو کھولا اور پیچھے بیٹھے ہجوم کو دیکھنے کا اشارہ دیا۔
یونیورسٹی طلبہ کے لیے لباس سے متعلق ہدایات جاری: صاف ستھرے اور مہذب لباس پہننے کی تاکید
اس موقع پر انٹرنیٹ پر ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملا۔ کچھ صارفین نے اس اشارے کو فاشسٹ علامت کے طور پر دیکھا، جب کہ دیگر نے مسک کی حرکت کو محض ایک ‘عجیب اشارہ’ قرار دیا۔ اینٹی ڈی فیمیشن لیگ (اے ڈی ایل) نے مسک کا دفاع کیا، تاہم اس دفاع پر برطانوی نژاد امریکی براڈ کاسٹر مہدی حسن اور امریکی نمائندہ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز سمیت کئی افراد نے شدید ردعمل دیا۔
مہدی حسن نے اے ڈی ایل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی فلسطینی اسرائیل پر تنقید کرے تو اسے مخالف صیہونی قرار دیا جاتا ہے، مگر مسک کو شک کا فائدہ دیا جا رہا ہے۔ اوکاسیو کورٹیز نے بھی اے ڈی ایل کی ٹوئٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ واضح طور پر نازی سلامی کا دفاع ہے۔
کچھ صارفین نے اے ڈی ایل کے دوہرے معیار کو اجاگر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ فلسطینی حامیوں پر یہود مخالف ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، مگر مسک پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی جاتی۔
یہ تنازعہ اس وقت بڑھ گیا جب مسک نے اپنی حرکت کی کوئی وضاحت یا دفاع نہیں کیا، جس سے ان کے سیاسی اثرات پر سوالات اٹھنے لگے۔ یہ صورتحال ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ امریکا میں طاقتور افراد کے لیے خود کو جوابدہ ٹھہرانا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔