مطابق، علی امین گنڈاپور کے کیس کی سماعت سینئر سول جج مبشر حسن چشتی کی عدالت میں کی گئی۔ اس دوران علی امین گنڈاپور کی طرف سے وکیل راجہ ظہور الحسن ایڈوکیٹ پیش ہوئے۔
ایلون مسک کا نازی سلامی جیسا اشارہ: تنازعہ اور مختلف ردعمل
سماعت کے دوران عدالت نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر ڈی آئی جی آپریشنز سے وضاحت طلب کی۔ جج مبشر حسن چشتی نے علی امین گنڈاپور کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کو ہر تاریخ پر پیش ہونے کے لیے کہا گیا تھا، لیکن وہ پیش نہیں ہو رہے۔
علی امین گنڈاپور کے وکیل نے درخواست کی کہ پہلے ملزم کی بریت کی درخواست پر فیصلہ کیا جائے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ استثنیٰ کی درخواستیں دینے سے صرف عدالت کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے، اور ملزم کے متعدد بار وارنٹ جاری ہونے کے باوجود تعمیلی رپورٹ جمع نہیں کروائی جا رہی۔
عدالت نے علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھتے ہوئے اس کے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ کرنے پر ڈی آئی جی آپریشنز سے وضاحت طلب کر لی۔ بعد ازاں، عدالت نے کیس کی سماعت 29 جنوری تک ملتوی کر دی۔
کیس کا پس منظر:
واضح رہے کہ اکتوبر 2016 میں اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ بنی گالہ کے قریب علی امین گنڈاپور کی گاڑی سے پانچ کلاشنکوف اسالٹ رائفلز، ایک پستول، چھ میگزین، ایک بلٹ پروف جیکٹ، شراب اور آنسو گیس کے تین گولے برآمد ہوئے تھے۔ تاہم، علی امین گنڈاپور نے پولیس کے ان دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف دو لائسنس یافتہ کلاشنکوف رائفلوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے، اور گاڑی میں اسلحہ کا لائسنس موجود تھا۔ علی امین گنڈاپور نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ شراب کی بوتل میں شہد لے کر جا رہے تھے، جسے پولیس اہلکاروں نے ضبط کر لیا تھا۔