مطابق کرم میں جاری آپریشن کے دوران اب تک 8 بنکرز کو مسمار کردیا گیا ہے۔ متاثرین کے لیے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے اشیائے خورونوش کی ترسیل بھی جاری ہے۔
عدالتی حکم کے باوجود کیسز مقرر نہ ہونے پر تشویش، کمیٹی کے کردار پر سوالات
ڈپٹی کمشنر کرم کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے بعد متاثرین کے لیے صدہ، ٹل، اور ہنگو میں کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ ان کیمپس میں ٹل ڈگری کالج، ٹیکنیکل کالج، ریسکیو اور عدالت کی عمارتوں کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے مطابق کیمپ آپریشن کے دوران آبادی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
مزید برآں، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے تاکہ کیمپوں میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ کمشنر کوہاٹ نے کہا کہ ضلع ہنگو میں قائم کیمپ میں تمام ضروری سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔
آپریشن کی تفصیلات:
اتوار کے روز کرم میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
19 جنوری سے بگن اور گرد و نواح میں کرفیو نافذ ہے، جس کے باعث کئی خاندان ضلع ہنگو کے علاقے ٹل منتقل ہوئے ہیں۔
گن شپ ہیلی کاپٹروں نے وسطی کرم کے علاقوں پستوانی، مندرہ، سنگروبا، اور جرنی میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر گولہ باری کی۔
پس منظر:
2024 کے آخری مہینوں میں کرم ایجنسی کے علاقے پاراچنار میں ایک مسافر بس پر حملے میں 44 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جس کے بعد مسلح قبائلی تصادم میں درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ راستوں کی بندش اور احتجاج کے باعث کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی قلت پیدا ہوگئی تھی۔
وفاقی حکومت نے متاثرین کی مدد کے لیے امدادی سامان ہیلی کاپٹرز کے ذریعے بھیجا تھا۔ حالیہ آپریشن کے دوران ریاست نے شرپسندوں کے خلاف سخت اور بلا امتیاز کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔