عدالتی حکم کے باوجود کیسز مقرر نہ ہونے پر تشویش، کمیٹی کے کردار پر سوالات

مطابق ایک خط میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بینچز کے اختیارات سے متعلق کیسز 13 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک، اور جسٹس عرفان سعادت کے بینچ کے سامنے مقرر تھے۔ سماعت کے دوران بینچز کے اختیارات کا سوال اٹھایا گیا، جس پر 16 جنوری کو بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا۔
وزیراعظم کا کابینہ اجلاس سے خطاب: غزہ میں مستقل جنگ بندی کی دعا، فلسطینی شہدا کا ذکر

خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس عقیل عباسی نے بطور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ پہلے ہی متعلقہ مقدمہ نہیں سنا تھا اور دفتر کو ہدایت دی تھی کہ کیس 20 جنوری کو ایک بجے متعلقہ بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔ تاہم، آگاہ کیا گیا کہ کیسز مقرر نہیں کیے گئے۔

یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ 17 جنوری کو یہ معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے سامنے لے جایا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے واضح کیا تھا کہ جوڈیشل آرڈر پہلے ہی پاس ہوچکا ہے اور کمیٹی کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود کمیٹی نے کیسز پر غور کیا اور ایک نیا 3 رکنی بینچ تشکیل دیا جو پہلے سے موجود بینچ کے خلاف تھا۔

خط کے مطابق:

کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے خلاف نہیں جاسکتی تھی۔

پورے ہفتے کی کاز لسٹ تبدیل کرکے کیسز بغیر آرڈر کے بینچ سے ہٹائے گئے۔

آفس نے کیس مقرر نہ کرکے عدالتی حکم کی تعمیل میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔

یہ صورتحال عدالتی سالمیت کو نقصان پہنچاتی ہے اور عدلیہ کی آزادی پر سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔

خط میں مزید کہا گیا کہ عدالتی حکم کی تعمیل نہ کرنا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد متزلزل کرتا ہے۔ 16 جنوری کے عدالتی حکم پر فوری عمل درآمد کیا جائے اور دفتر کو مقدمات مقرر کرنے کی واضح ہدایات دی جائیں۔

59 / 100

One thought on “عدالتی حکم کے باوجود کیسز مقرر نہ ہونے پر تشویش، کمیٹی کے کردار پر سوالات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!