عالمی ادارے اپسوس (آئی پی ایس او ایس) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اسموگ (دھند) کی وجہ سے ہر 10 افراد میں سے 7 لوگوں کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں کھانسی، نزلہ اور سانس لینے میں دشواری کی علامات عام ہیں۔
اسموگ تدارک کیس: تعمیرات پرپابندی برقرار، ’ورک فرام ہوم‘ پالیسی بنانے کا حکم
گزشتہ ایک ماہ کے دوران ریکارڈ توڑ دھند سے متاثر ہونے والے صوبہ پنجاب میں 20 لاکھ لوگوں نے ہسپتالوں اور صحت مراکز میں جاکر سانس لینے میں دشواری اور امراض تنفس کے حوالے سے علاج کے لیے ڈاکٹرز کی خدمات حاصل کیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ مہینے صوبہ پنجاب میں دھند کی صورتحال بگڑنے کی وجہ سے پنجاب میں اسے ’آفت‘ قرار دیا گیا تھا، انٹرنیشنل ایئر کوالٹی انڈیکس کے انڈیکس اسکیل کے مطابق 300 یا اس سے زائد کی ایئر کوالٹی انڈیکس کی پیمائش صحت کے لیے نقصان دہ ہے، جب کہ پاکستان میں مستقل طور پر یہ سطح ایک ہزار انڈیکس سے بلند رہی ہے۔
اپسوس سروے کا عنوان ’پاکستان میں اسموگ: آگاہی، تصورات اور طرز عمل‘ تھا جو 26 نومبر کو جاری کیا گیا، یہ سروے 18 سے 22 نومبر کے دوران کیا گیا تھا، اس میں کمپیوٹر، ٹیلی فون کالز کے ذریعے پنجاب بھر اور اسلام آباد سے ایک ہزار افراد کے انٹرویوز کیے گئے تھے۔
عوامی آگاہی اور ان کے تجربے سے متعلق سروے کے پہلے حصے کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 79 فیصد لوگوں (ہر 10 میں سے 8 افراد) نے گزشتہ مہینے دھند کا سامنا کیا، جبکہ لاہور میں رہنے والے تمام لوگوں کو دھند کا سامنا کرنا پڑا، یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ دھند کا سامنا کرنے والے 68 فیصد لوگوں کو اس سے متعلقہ صحت کے مسائل در پیش آئے، شہروں میں بسنے والے 71 جبکہ دیہی علاقوں کے 67 فیصد لوگوں نے صحت کے مسائل کا سامنا کیا۔
سروے میں روز مرہ زندگی پر دھند کی وجہ سے پڑنے والے اثرات سے متعلق کہا گیا ہے کہ ’ایک تہائی پاکستانیوں نے کہا کہ دھند کی وجہ سے ان کی روز مرہ کی گھریلو مصروفیات، ملازمت یا کام ، اور سماجی ایونٹس متاثر ہوئے، سروے میں مزید کہا گیا ہے کہ دھند سے پنجاب تمام صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ متاثر ہوا، سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر لاہور اور راولپنڈی رہے۔
سروے کے دوسرے مرحلے میں لوگوں سے دھند کی ’وجہ‘ کے بارے میں ان کے تصورات اور رائے کی بابت استفسار کیا گیا تو 70 فیصد لوگوں نے کہا کہ دھند کی وجہ گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں ہے، 63 فیصد نے صنعتی مشینری سے خارج دھوئیں کو دھند کی وجہ قرار دیا جب کہ 37 فیصد نے کہا کہ کچرے کو جلایا جانا دھند کی بڑی وجہ ہے، 31 فیصد لوگوں نے اینٹوں کے بھٹوں کو جب کہ 30 فیصد نے فصلوں کی باقیات جلانے کو دھند کی اہم وجہ قرار دیا، جب کہ ہر 5 میں سے ایک فرد نے کہا کہ یہ اللہ کا ’عذاب‘ ہے۔
سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 44 فیصد لوگوں کی رائے ہے کہ دھند میں اضافے کی وجہ عوام کی جانب سے عدم تعاون ہے، 37 فیصد کا ماننا ہے دھند اور ماحولیاتی آلودگی کا مقابلہ کرنے کے لیے قوانین کا ’سخت نفاذ‘ ضروری ہے۔
آخری مرحلے میں اقدامات اور رویوں کے حوالے سے ڈیٹا کے مطابق 80 فیصد افراد نے تسلیم کیا کہ انہیں بھی دھند کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت تھی، سروے رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ مردوں نے اس حوالے سے کردار نبھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جو جتنا زیادہ باخبر ہے، اسے اتنی ہی ذمے داری بھی لینی چاہیے‘۔
سروے میں شریک لوگوں سے جب دھند میں کمی کے لیے ان کی ترجیحات کا پوچھا گیا تو 48 فیصد نے کہا کہ وہ پیدل چلنے کو ترجیح دینے کے لیے تیار ہیں، 31 فیصد نے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر، 29 فیصد نے سائیکلوں جب کہ 10 فیصد نے الیکٹرک بائیکس/ گاڑیوں کا انتخاب کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 796 ایسے افراد جن کے پاس ذاتی گاڑیاں ہیں، ان میں سے ہر 10 میں سے 9 افراد نے اپنی گاڑیوں کی مرمت کرواکر حکومت سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا، یہ حکومت کے لیے واضح اشارہ ہے کہ اب وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔
سروے نتائج کے مطابق ہر 5 میں 3 لوگوں نے پنجاب حکومت کی جانب سے دھند سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا، تاہم اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی جانب سے عدم اطمینان کا جواب ملا، جس سے صوبائی حکومت کی جانب سے ’دھند‘ سے نمٹنے کے لیے اپنائی گئی حکمت عملی کے لیے ترجیحات اور اقدامات پر تحفظات میں اضافے کا اشارہ ملتا ہے۔