آج پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید (نشانِ حیدر) کا 53 واں یوم شہادت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ پاک فضائیہ کے اس دلیر سپوت نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے دفاع وطن کی ایک ایسی ناقابل فراموش داستان رقم کی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید (نشانِ حیدر) پاکستان کی تاریخ میں جرات و بہادری کی مثال ہیں جنہوں نے قوم کے لیے ایک سنہرا باب لکھا۔ نمبر 2 فائٹر کنورژن یونٹ میں ان کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔
2 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برداشت کرلیں تو 50 ارب کا فائدہ ہوگا، اویس لغاری
راشد منہاس 17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور 14 مارچ 1971 کو پاکستان فضائیہ کے 51ویں جی ڈی یو کورس میں کمیشن حاصل کیا۔ 20 اگست 1971 کو انہوں نے ایک ناقابل فراموش قربانی دی۔
اس روز پائلٹ آفیسر راشد منہاس ایک معمول کی ٹریننگ فلائٹ کے لیے اڑے تھے جب ان کے بنگالی انسٹرکٹر نے کاک پٹ میں زبردستی گھس کر جہاز کا کنٹرول سنبھال لیا اور بھارتی سرحد کی طرف پرواز کرنے لگا۔ جب راشد منہاس کو یہ احساس ہوا تو انہوں نے فوری طور پر جہاز کا کنٹرول واپس لینے کی کوشش کی، اس وقت جہاز بھارتی سرحد سے صرف 40 میل کی دوری پر تھا۔
پائلٹ آفیسر راشد منہاس نے بہادری سے مزاحمت کرتے ہوئے جہاز کو دشمن ملک میں لے جانے کی ہر کوشش ناکام بنادی اور جہاز کو زمین کی جانب موڑ دیا۔ جہاز بھارتی سرحد سے 32 میل دور تباہ ہوا، اور اس عمل کے دوران راشد منہاس نے اپنی جان قربان کر دی، لیکن دشمن کو ناکام بنا دیا۔
پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید پاکستان کے سب سے کم عمر نشانِ حیدر حاصل کرنے والے ہیرو ہیں جنہوں نے قائدانہ صلاحیتوں کا اعلیٰ مظاہرہ کیا اور اپنے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کر دی، یوں وہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن گئے۔
ان کے 53ویں یوم شہادت کے موقع پر ملک بھر کی مساجد میں قرآن خوانی اور دعائیں کی گئیں۔ علماء کرام نے راشد منہاس شہید کے درجات کی بلندی کے لیے خصوصی دعائیں کیں اور کہا کہ شہداء کی قربانیاں قوم کے لیے عظیم قرض ہیں۔ زندہ قومیں اپنے شہداء کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں، اور پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید ہمیشہ قوم کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔