تحریر: تشکر نیوز
کراچی میں میڈیکل اسٹورز انسانی زندگیوں سے کھیلنے لگے ۔۔۔کراچی کے بیشتر میڈیکل اسٹورز پر فارمسٹ کی عدم موجودگی سوالیہ نشان بن گئی ۔۔ متعدد میڈیکل اسٹورز پر دکاندارڈاکٹر کے نسخوں کے بغیر خود ہی دوائیں کھلے عام بیچ رہے ہیں ۔۔کراچی کے میڈیکل اسٹورز پر فارمسٹ کی خطرناک حد تک کمی نے عوام کی صحت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔۔ بلڈ پریشر۔۔شوگراوردیگرامراض کے مریضوں کو اینٹی بایوٹکس ڈاکٹرز کے نسخوں کے بغیربیچی جانے لگیں ۔ سردرد۔۔ نزلہ زکام۔۔ بخاراورڈائریا سمیت متعدد بیماریوں کی دوائیں بھی میڈیکل اسٹورز پر دھڑلے سے بیچی جارہی ہیں مریض چاہے شوگر کا ہو یا بلڈ پریشر کا فارمسٹ سے محروم میڈیکل اسٹورز پر موجود دکاندار سب کو ایک طرح کی اینٹی بائیوٹک فروخت کردیتے ہیں طبی ماہرین نے خبر دار کیاہے کہ فارمسٹ کی عدم موجودگی میں ڈاکٹرز کے نسخوں کے بغیر ادویات شوگر ۔۔۔ بلڈ پریشر اور گردوں کے مریضوں کیلئے سخت نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں
جعلی ادویات ۔۔ علاج کی بجائے زندگیاں چھیننے لگیں
ترقی یافتہ ملکوں میں ہر میڈیکل سٹور میں، جنھیں فارمیسی کہا جاتا ہے، ہر وقت ایک کوالیفائیڈ فارماسسٹ کی موجودگی لازمی ہوا کرتی ہے۔ یہ فارمیسی نہ صرف ادویات کی فروخت کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں بلکہ فارماسسٹ پوری کمیونٹی کو طبی معلومات کی ترسیل کا فوری ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ان ملکوں میں اگر کسی کو معمولی نوعیت کا طبی مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ ہسپتال جانے کی بجائے اپنے محلے میں واقع میڈیکل سٹور پر موجود فارماسسٹ سے مشورہ کر لیتا ہے، اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔امریکہ میں مختلف پیشوں کی دیانت اور اخلاقیات کے بارے میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق فارماسسٹ سب سے قابلِ اعتماد پروفیشنل قرار پائے۔ آئی سی ایم ان لمیٹیڈ کے اس سروے کے مطابق سروے میں حصہ لینے والے 97 فیصد لوگوں نے فارماسسٹوں پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اس فہرست میں جنرل پریکٹیشنر چوتھے، جب کہ ڈینٹسٹ، اساتذہ اور پولیس افسر علی الترتیب پانچویں، چھٹے اور ساتویں نمبر پر آئے۔اس کے مقابلے پر کراچی جیسے شہر میں 96 فیصد میڈیکل سٹوروں پر فارماسسٹ سرے سے موجود ہی نہیں اور نہ ہی سٹور کے مالکان کو اس
کی کوئی پروا ہے۔
دوستو ۔۔ دوسری جانب جعلی ادویات کا کاروبار ملک میں تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں ایڈز، کینسر، ہیپاٹائٹس اور ٹی بی جیسے مہلک امراض بھی بڑھ رہے ہیں۔ فارمیسی میں جو کام ایک فارمسٹ کے کرنے کا ہوتا ہے وہی کام ایک ایسا آدمی کررہا ہوتا ہے جو فارمیسی کی ابجد سے بھی نابلد ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ادویات کی بڑی مقدار جعلی ہے اور بغیر نسخوں کے بنائی جا رہی ہے، معصوم اور غریب عوام اپنی حلال آمدن سے جعلی ادویات کی مد میں اپنے لئے موت کا سودا کررہے ہوتے ہیں۔ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی کی نااہلی کے سبب ایسی کئی دوائیاں رجسٹر ہو رہی ہیں جو سراسر انسانی صحت کیلئے مضر ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں جتنی دوائیاں رجسٹرہوئی ہیں پچھلی کئی دہائیوں میں نہیں ہوئیں اور اس کاروبار میں جعل ساز کمپنیاں مال بنا رہی ہیں۔ مارکیٹ میں بڑی اور قابل بھروسہ سمجھی جانے والی دواوں کے نام پر جعلی ادویات کی فروخت بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ میڈیکل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اصل اور نقل میں پہچان کرنے سے قاصر ہیں۔پاکستان میں جہاں ہر شعبے میں بددیانتی ہو رہی ہے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صحت کی کم سہولتوں کے حوالے سے پاکستان سب سے پسماندہ ملک ہے جہاں ادویات اور غذاکی قلت کے باعث روزانہ1184بچے وفات پا جاتے ہیں۔45فیصد بچوں کی اسی وجہ سے ذہنی اور جسمانی گروتھ مکمل نہیں ہو پاتی اور وہ وقت سے پہلے ہی موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح جعلی ادویات سے ہر سال اربوں روپے کمائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ جرم ہر سال ہزار ہا انسانوں کو وقت سے پہلے قبروں میں اتار رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں جعلی وغیر معیاری ادویات کے کاروبار کا سالانہ حجم دوسو ارب ڈالر کے قریب ہے۔پاکستان میں جعلی ادویات کا کاروبار بہت پھیلا ہوا ہے، شہروں میں جعلی ادویات بنانے کی فیکٹریاں قائم ہیں۔ایسے اہلکاروں کے ان دعووں کی تردید کے لیے محض چند بڑے حقائق کی طرف اشارہ کرناہی کافی ہوگا۔2012میں پاکستان کے دو شہروں میں کھانسی کا شربت پینے کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے ۔وجہ یہ تھی کہ شربت تو کھانسی کے علاج کے لیے تھا مگر پینے والے اسے نشے کے لیے بہت زیادہ مقدار میں پیتے رہے۔ کھانسی کے اس شربت میں ایک ایسا زہریلا مادہ بھی تھا،جو نہیں ہونا چاہیے تھا اور جو مارفین سے بھی پانچ گنا زیادہ خطرناک تھا اسی طرح درجنوں کئی جعلی ادویات بھی مارکیٹ میں موجود ہیں جو مریضوں کی بیماری میں طوالت حتیٰ کہ ان کی موت تک کی وجہ بن جاتی ہیں۔صحت کے حوالے سے اور علاج معالجے کیلئے پاکستان کا ہر شہری اپنے آمدن کا اوسطاً 37فیصد ادویات کی خرید اری اور ڈاکٹرز کی فیسوں کی مد میں ادا کر دیتا ہے۔ اس پر ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ پاکستان کے اندر فروخت کی جانیوالی ادویات ناصرف انتہائی مہنگی ہیں بلکہ خوفناک حقیقت یہ ہے کہ فروخت ہونیوالی ان ادویات میں سے ستر فیصد دوائیں جعلی اور جان لیوا ہوتی ہیں۔پاکستان میں دواسازی کی صنعت کے غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک کی تعداد 191ہے۔ان میں سے صرف 20فیصد ریاستوں کے پاس فارما انڈسٹری سے متعلق کوالٹی کنٹرول کا نظام موجود ہے۔ جنوبی ایشیائی ملک میں کچھ’’ رجسٹرڈ دوا ساز ادارے‘‘ایسے بھی ہیں،جو فارماسیوٹیکل فیکٹریوں کے طور پر گھروں کے دو دو کمروں میں کام کر رہے ہیں۔ایسی ادویات بنانے والے کئی افراد ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر کروڑوں کا منافع کما رہے ہیں۔جو نقلی دوا بیس روپے کی لاگت سے بنتی ہے،وہ ڈھائی تین سو روپے میں بیچی جاتی ہے ۔ڈاکٹر مریض کو جودوائی تجویز کرتا ہے،کبھی کبھی کیمسٹ کوئی دوسری دوائی بیچنے کے لیے مجوزہ دوائی اپنی مرضی سے تبدیل بھی کر دیتا ہے۔اس وقت ملک میں 37ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں، جعلی ادویات سے ہر سال ہزاروں افراد موت کی نیند سلادیتے ہیں یا پھر انہیں ہمیشہ کے لیے لا علاج مریض بنا دیا جاتا ہے۔ ڈرگ رجسٹریشن اتھارٹی کو اس غیر قانونی دھندے کے سد باب کیلئے اپنا فرض ادا کرنا ہو گا تاکہ لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع نہ ہوں
منشیات سے متعلق اقوام متحدہ کے نگران ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں جعلی ادویات کی بھرمار ہے جن کے بعض اوقات تباہ کن نتائج برآمد ہوتے ہیں۔انسداد منشیات کے عالمی بورڈ کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹوں میں پچاس فیصد سے زیادہ ادویات جعلی ہوتی ہیں۔رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جعلی ادویات کا کاروبار بہت جلد دنیا بھرمیں موجود غیر قانونی منشیات کے کاروبار سے بڑہ جائے گا۔
انسداد منشیات بورڈ کہنا ہے کہ حکومتوں کو ادویات کے متعلق موجودہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانا چاہیے اور انٹرنیٹ کے ذریعے ادویات کے غیر قانونی کاروبار سے متعلق نئے قوانین متعارف کرانا چاہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’ان مارکیٹوں میں ایسی ادویات دستیاب ہیں جن کے لیبل پر ناکافی اور غلط تفصیلات درج ہوتےہیں۔ یہ ادویات غیر مؤثر، غیر معیاری اور بعض اوقات زہریلی ہوتی ہیں جس سے مریض کی صحت کو خطرہ ہوسکتا ہے
جس ملک میں عام آدمی کو علاج معالجے کی سہولتیں میسر نہیں اور جہاں ملک کے کروڑوں عوام کو اپنی جمع پونجی لٹا کر بھی اچھی اور معیاری ادویات نہیں مل سکتیں۔ اس ملک کے وزیراعظم سے لیکر وزراءاعلیٰ سمیت وفاقی و صوبائی وزراءاور سیاسی رہنما اپنے طبی معائنے کےلئے یورپی اور امریکی ممالک کا رخ کرتے رہتے ہیں۔ ایسے چند ہزار افراد کو ملک میں تیار ہونے والی جعلی اور غیرمعیاری ادویات کے بارے میں انکے سدباب سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ جہاں تک جعلی ادویات کے سدباب اور ایسے گھناﺅنے کاروبار سے پاکستانی قوم کو محفوظ رکھنے کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے ایوان اقتدار کے مکینوں اور اسکی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے والوں کو بھی اپنے اور اپنے اہلخانہ کے علاج معالجے کیلئے بیرونی ممالک کا رخ کرنے کی بجائے ملک کے شفاخانوں، ڈاکٹروں اور ملکی فیکٹریوں میں تیار ہونےوالی ادویات ہی پر انحصار کرنا پڑےگا۔ جب تک ایسا دیکھنے میں نہیں آئےگا۔ صاحبانِ اقتدار کی زبان سے نکلنے والے ایسے نعروں اور دعوﺅں کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی کہ وزیراعظم سے لے کر عام پاکستانی تک کو ایک ہی دوائی ملے گی اور ان سب کو یکساں قسم کی طبی سہولتیں میسر ہوں گی۔