یہ کیا بات ہوئی کہ ریٹائرڈ شخص پر سارا ملبہ ڈالا دو اور حاضر سروس کا نام لینے کی ہمت نہ ہو

تشکُّر نیوز رپورٹنگ،

مولانا نے کہا ہے کہ قمر باجوہ کے ساتھ فیض حمید نہیں بلکہ اور لوگ بھی تھے، بتائیں کہ وہ کون لوگ تھے؟ رانا ثناء اللہ کا سوال

رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ مولانا کہہ رہے ہیں کہ قمر باجوہ کیساتھ فیض حمید نہیں اور لوگ تھے، مولانا بتائیں کہ وہ لوگ کون تھے؟۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق مولانا فضل الرحمان کے الزامات اور انکشافات پر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ کی جانب سے ردعمل دیا گیا ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ ریٹائرڈ شخص پر سارا ملبہ ڈالا دو اور حاضر سروس کا نام لینے کی ہمت نہ ہو، مولانا نے کہا ہے کہ قمر باجوہ کے ساتھ فیض حمید نہیں بلکہ اور لوگ بھی تھے، بتائیں کہ وہ کون لوگ تھے؟ ۔ مولانا فضل الرحمان عالم دین ہیں، انہوں نے جو باتیں کہی ہیں وہ ان کے خود کے ساتھ زیادتی ہے۔

 

 

دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کا تحریک عدم اعتماد سے متعلق الزامات پر بیان حلفی دینے سے انکار کر دیا۔ جمیعت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ روز کے انٹرویو کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کل انٹرویو میں فیض حمید کا نام غلطی سے زبان پر آ گیا تھا، عدم اعتماد کے معاملے میں قمر باجوہ اور دیگر لوگ شامل تھے، عدلیہ سمیت کسی ادارے پر اعتبار نہیں، مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ کا حصہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھائیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جمیعت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سماء نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ 2018 میں بھی دھاندلی ہوئی تھی اب بھی دھاندلی ہوئی ہے۔ بظاہر الیکشن میں دھاندلی کا فائدہ مسلم لیگ ن کو ہوا ہے، افواہ ہے کہ نوازشریف کو لاہور کی سیٹ دی گئی ہے۔ پی ڈی ایم میں اختلافات کے باوجود ہم اکٹھے چل رہے تھے، پی ٹی آئی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا، پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیپلزپارٹی چلا رہی تھی،میں اگر تحریک عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا کہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کررہا ہوں، میرے پاس فیض حمید آئے اور کہا کہ سسٹم میں رہ کر جو کرناچاہیں کرسکتے ہوہمیں کوئی اعتراض نہیں، فیض حمید نے کہاکہ سسٹم سے ہٹ کر نہیں سسٹم میں رہ کرکریں۔
، سسٹم میں رہ کر مزاحمت کرنے کا مطلب اسمبلیوں میں بیٹھ کر کرنا ہے لیکن میں نے انکار کردیا تھا۔ تحریک عدم اعتماد جنرل باجوہ کے کہنے پر لائی گئی، پی ٹی آئی، بی اے پی ، ایم کیوایم والے جب آئے تو پھر کہا گیا اب ہمارے پاس اکثریت ہے، پی ٹی آئی کے اتحادی اور لوگ ٹوٹ کر ہمارے پاس آرہے تھے، جب یہ لوگ ٹوٹ کر ہمارے پاس آئے تو جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید ہمارے ساتھ رابطے میں تھے، پی ٹی آئی کی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے ہی بنائی اور انہوں نے ہی گرائی، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمیدکی موجودگی میں سب کو کہا گیا کہ آپ نے ایسے کرنا ہے، اس پر بعد میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے مہر لگائی۔
انہوں نے کہا کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے، میری نظر میں موجودہ پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں، ہم پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جارہے ہیں، ہم حکومت سازی کا حصہ نہیں اگر حکومت میں شامل ہوتے تو ن لیگ کو سپورٹ کرتے، ہم نے پہلے بھی مسلم لیگ ن کی سپورٹ کی تھی آئندہ بھی کرتے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کا مئوقف ہے کہ الیکشن شفاف ہوئے ہیں تو پھر 9 مئی کا بیانیہ دفن ہوگیا ، اگر شفاف الیکشن کا مئوقف مان لیا جائے تو کیا پھر لوگوں نے غداروں کو ووٹ دیئے؟میرا اصل مسئلہ اور دعویٰ تو اسٹیبلشمنٹ پر ہے، میں ایسی حکومت بنانے کو کامیاب حکمت عملی نہیں سمجھتا، حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو اچھے برے کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
ہمارا مئوقف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے ہم سے دھاندلی کی گئی۔ شہبازشریف آئے تھے ہم نے کہا کہ اپوزیشن میں بیٹھیں جواب دیئے بغیر چلے گئے۔ پی ٹی آئی والوں کے ساتھ دماغ ملنے کا فرق ہے جو ختم ہوسکتا ہے، جب پی ٹی آئی والے آئیں تو پتا چلے گا کیا بات کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!