کراچی(تشکُّر نیور) نگراں صوبائی وزیر بلدیات،ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ و بحالیات سندھ محمد مبین جمانی نے کہا ہے کہ تعمیراتی شعبے کو درپیش مشکلات اور کراچی کے مسائل حل کرنے کیلیے آئندہ ہفتے کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں آباد کا ممبر کو بھی شامل کیا جائے گا۔ رواں ماہ کے احتتام تک کراچی شہر کے تمام ٹاؤنز ڈیجیٹلائز ہوجائیں گے،25 ٹاؤنز میں سے 14 کو ڈیجیٹلائز کردیا گیا ہے۔ ایس بی سی اے کا نظام بھی مکمل ڈیجیٹلائز کردیا گیا ہے ڈیجیٹلائزیشن کے عمل سے 12 سو ایسے ملازمین کی نشاندہی ہوئی ہے جو بیک وقت 3/3 سرکاری محکموں ملازمتیں کرتے تھے۔لاقانونیت کے سسٹم نے ہی بیڑہ غرق کیا اور اس سسٹم کو ختم ہی کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز(آباد) کے مرکزی دفتر میں منعقدہ تقریب سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر نگراں صوبائی وزیر اطلاعات و اقلیتی امور محمد احمد شاہ آباد کے سرپرست اعلیٰ محسن شیخانی، چیئرمین آباد آصف سم سم، سینئر وائس چیئرمین ابراہیم ایس حبیب، وائس چیئرمین ذیشان صدیقی، چیئرمین سدرن ریجن مصطفی شیخانی، آباد کے سابق چیئرمینز اور ممبران کی بڑی تعداد موجود تھی۔ نگراں صوبائی وزیر مبین جمانی نے کہا کہ میں نے سندھ کابینہ اجلاسوں میں آباد کے مسائل کو اٹھایا ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ کو غیر تعمیرات سے متعلق آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آباد کے بہت سارے مسائل حل کیے مگر کچھ چیزوں میں قانونی پیچیدگیاں ہیں۔انھوں نے کہا کہ پتہ نہیں نگراں حکومت کب تک ہے مگر مسائل کو حل کرنے میں لگے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نقشوں کو دوبارہ ری کنفرمیشن کرنے کی شق کو ختم کروایا گیا ہے۔نگراں وزیر نے کہا کہ میں نے امریکا میں بھی تعمیراتی شعبے میں کام کیا ہے۔امریکا میں تعمیرات کے معاملے کو کاؤنٹی دیکھتی ہے،آج تک کبھی بھی کاؤنٹی نے ہماری چائے تک نہیں پی۔دوسرے ملکوں میں معاملات فوری حل ہوتے ہیں۔ہمیں بھی دوسرے ملکوں کی طرح اداروں کو اپ گریڈ کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ تعمیراتی لاگت آسمان پر پہنچ گئی ہے۔جن پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ مبین جمانی نے کہا کہ کراچی کا اولڈ ٹاؤن گولڈن ٹاؤن ہے، ایک ہزار گز پر سینکڑوں فلیٹ بن جاتے ہیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگراں صوبائی وزیر اطلاعات و اقلیتی امور سندھ محمد احمد شاہ نے کہا کہ آباد کے بجائے فرد واحد کو سرکاری سطح پر ہزاروں ایکڑ اراضی دی جاتی ہے، آباد کو کیوں نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سسٹم کا خاکہ ایسا ہے کہ جس میں کرپشن کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، بیرونی دنیا میں جن معاملات پر سزائیں دی جاتی ہیں پاکستان میں اس کے برعکس ایوارڈ دیے جاتے ہیں اور جن معاملات پر بیرونی دنیا میں ایوارڈ دیے جاتے ہیں ان پر پاکستان میں سزائیں دی جاتی ہیں، اس سسٹم کو بدلنے کے لیے انقلابی اقدام کرنے ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اب ملک سے مایوس ہوکر بیرون ملک منتقل ہورہا ہے۔ احمد شاہ نے کہا کہ ہمارے ملک سے صرف پیسہ ہی نہیں بلکہ ہنر مند نوجوان بھی چلے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو سہولتوں کی فراہمی ممکن ہو،امن وامان قائم ہو اور عوام از خود اس ملک میں ٹیکسز ادا کریں تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔اس موقع پر آباد کے پیٹرن ان چیف محسن شیخانی نے کہا کہ تعمیراتی شعبے کے لوگ صرف 20 فیصد کاروبار اور 80 فیصد اداروں،لینڈ مافیا کو جوابدہی میں مصروف ہیں۔عالمی سطح پر تعمیراتی شعبے کے کام پر عزت ملتی ہے، جبکہ پاکستان میں ادارے جائز کام کرنے نہیں دیتے۔ان حالات میں بیرون ملک سے پاکستان میں سرمایہ کاری کیسے ممکن ہے،بدقسمتی سے دعوؤں کے باوجود شہر میں غیر قانونی تعمیرات نہ رک سکی ہے۔انھوں نے کہا کہ نگراں حکومت کو موقع ملا ہے،خدارا اچھے فیصلے کریں۔اراضی کی ڈیجیٹلائزیشن کا نظام کام نہیں کررہا ہے۔سرکاری سطح پر اگر افسران کام نہ کریں تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ چیئرمین آباد آصف سم سم نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعمیراتی صنعت پر توجہ نہ دی گئی تو 40 فیصد ترسیلات زر کی آمد متاثر ہوسکتی ہے۔آباد ممبران اور گلی محلوں کے ٹھیکیداروں میں فرق ہے۔گلی محلوں میں غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بلڈرز نہیں ٹھیکیدار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نگراں حکومت نے مختصر عرصے میں بہترین کام کیے ہیں۔ آباد کے ممبران کودرپیش مسائل حل کرنے پر دونوں نگراں وزرا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ملکی ترقی کے لیے ہمیں اپنی معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنا ہوگا۔ اس موقع پر آباد کے سینئر وائس چیئرمین ابراہیم ایس حبیب نے کہا کہ نگراں حکومت کے دور میں وزرا نے ہمارے مسائل سنے اور ان میں سے بیشتر مسائل کیے گئے جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں۔