ریاض/واشنگٹن – امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تاریخی دورۂ سعودی عرب کے دوران دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑے دفاعی و اقتصادی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 142 ارب امریکی ڈالر بتائی گئی ہے۔ یہ معاہدے سعودی عرب کی جانب سے متوقع 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے عہد کا حصہ ہیں، جن کا مقصد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تزویراتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
پاکستان کا مودی کے اشتعال انگیز اور جھوٹے بیانات پر دو ٹوک ردعمل
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدے صرف دفاعی نوعیت کے نہیں بلکہ توانائی، صنعت، خلاء، صحت، اور تربیت کے شعبوں میں بھی شامل ہیں۔ دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ، سعودی عرب کو جدید اسلحہ، جنگی طیارے، تربیت یافتہ عملہ اور دیگر تکنیکی سہولیات فراہم کرے گا۔
اس تاریخی معاہدے میں 4 ارب 80 کروڑ ڈالر مالیت کے 737 بوئنگ طیارے شامل ہیں، جنہیں سعودی عرب کی سول ایوی ایشن میں شامل کیا جائے گا۔ اسی طرح جی ای (GE) کمپنی کی جانب سے گیس ٹربائنز کی برآمدات کے بھی معاہدے طے پائے ہیں۔
مزید برآں، توانائی کے شعبے میں 14 ارب 20 کروڑ ڈالر کا معاہدہ بھی کیا گیا ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان طویل المدتی تعاون کی راہ ہموار ہوگی۔
دوسری جانب، خبر رساں اداروں کے مطابق سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ایف-35 جنگی طیاروں کی ممکنہ خریداری پر بھی تبادلہ خیال ہوا، تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ معاہدہ ان دفاعی معاہدوں کا حصہ ہے یا نہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق، صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد کے درمیان ہونے والی ملاقات میں توانائی، معدنیات، خلائی تعاون، صحت اور دیگر تزویراتی شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے ہیں، جو مستقبل میں باہمی تعلقات کو مزید وسعت دیں گے۔
صدر ٹرمپ کی آمد پر سعودی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے "ایئر فورس ون” کو فضائی حصار میں لیتے ہوئے ایئرپورٹ تک محفوظ پہنچایا، جہاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ کا پُرتپاک استقبال کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان دو طرفہ تعلقات، سیکیورٹی تعاون اور خطے کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
صدر ٹرمپ اپنے دورہ کے دوران خلیجی تعاون کونسل (GCC) کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے، جبکہ قطر اور متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کریں گے، جہاں علاقائی استحکام، دہشتگردی کے خلاف جنگ اور اقتصادی تعاون پر بات چیت ہوگی۔
یہ دورہ نہ صرف امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے کردار کو ایک بار پھر نمایاں کرتا ہے، جس کے تحت عالمی طاقتیں خطے میں نئی اقتصادی و دفاعی حکمت عملی طے کر رہی ہیں۔