اسرائیلی دفاعی کمپنی آئی اے آئی کے مطابق، ہیروپ ایک خود مختار حملہ آور ڈرون ہے جو جنگ کے میدان میں ایمونیشن لے جا کر دشمن کے اہم اہداف، خصوصاً فضائی دفاعی نظام، کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ڈرون میزائل اور بغیر پائلٹ فضائی گاڑی (یو اے وی) کی خصوصیات کو یکجا کرتا ہے، جو اسے ایک خود پرواز کرنے والا "ہوائی ہتھیار” بناتا ہے۔
پی ایس جی نے آرسنل کو شکست دے کر چیمپئنز لیگ فائنل میں جگہ بنا لی
ہیروپ مکمل طور پر خودکار انداز میں کام کر سکتا ہے یا اسے ’ہیومن ان دی لوپ‘ طریقہ کار سے انسانی کنٹرول میں بھی چلایا جا سکتا ہے۔ اگر نشانہ حاصل نہ ہو، تو یہ واپس آ کر اڈے پر اتر سکتا ہے۔ فولڈ ہونے والے پروں کے ساتھ اسے ٹرک یا بحری جہاز پر نصب لانچر سے لانچ کیا جا سکتا ہے۔
جامشورو کی مہران یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فہد عرفان صدیقی نے بتایا کہ یہ ایک فوجی سطح کی ٹیکنالوجی ہے، جو نہ صرف ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے بلکہ حملہ بھی کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام سول یا زرعی سروے ڈرونز جیمرز کی مدد سے بیس اسٹیشن سے منقطع ہو جاتے ہیں، لیکن ہیروپ جیسے ملٹری گریڈ ڈرونز سیٹلائٹ کے ذریعے چلتے ہیں، اس لیے ان کی ریڈیو فریکوئنسی بلاک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا میں جن ڈرونز کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عام طور پر کوڈ کوپٹر ہوتے ہیں، جن کا سراغ لگانا مشکل ضرور ہے، لیکن وہ مہلک نہیں ہوتے۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق، 250 گرام سے زائد وزن کے ڈرونز کے لیے سول ایوی ایشن اتھارٹی سے لائسنس حاصل کرنا ضروری ہے، جبکہ کم وزن والے ڈرونز کو کھلونا یا تفریحی ڈرون سمجھا جاتا ہے۔ حساس تنصیبات، ہوائی اڈوں اور سرحدی علاقوں کے 5 کلومیٹر کے اندر ڈرون کی پرواز ممنوع ہوتی ہے۔
ٹی آر ٹی گلوبل کے مطابق، بھارت نے گزشتہ دہائی میں اسرائیل سے 2.9 ارب ڈالر کے فوجی سازوسامان، جن میں لڑاکا ڈرون، میزائل اور نگرانی کا سامان شامل ہے، درآمد کیا ہے۔
ہیروپ ڈرون 2016 اور 2020 میں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان ناگورنو کاراباخ جنگ میں استعمال کیا گیا تھا، جس میں ایک فوجی بس کو نشانہ بنا کر کئی فوجی ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اس کے بعد سے یہ ڈرون کئی ممالک کو برآمد کیا جا چکا ہے، اور ایک نمایاں جنگی ٹیکنالوجی کے طور پر ابھر چکا ہے۔