کراچی (نمائندہ خصوصی) — کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس اہلکاروں کی مبینہ طور پر اغوا برائے تاوان میں ملوث ہونے کی ایک سنگین واردات کا انکشاف ہوا ہے۔ اس واقعے میں پولیس موبائل اور سفید ڈبل کیبن میں سوار سادہ لباس اہلکاروں نے ایک شہری سرفراز اور اس کے دوست کو اغوا کیا اور ان سے ایک کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ مدعی سرفراز نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا کہ اغوا کاروں نے ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انہیں ایک نامعلوم مقام پر منتقل کیا جہاں پر ان سے تاوان کی رقم کا مطالبہ کیا گیا۔
کراچی میں قانون کی عملداری سوالیہ نشان، 34 روز میں 52 شہری نامعلوم گولیوں کا نشانہ
مدعی کے مطابق، اغوا کاروں نے ان سے کہا کہ وہ کتنے پیسے دے سکتے ہیں اور انکار کرنے پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سرفراز نے اپنی گاڑی کے چھت پر چھپائے گئے پیسے کے بارے میں بتایا جس کے بعد اغوا کاروں نے 5 لاکھ 25 ہزار روپے نکال لیے اور بعد ازاں انہیں نیشنل ہائی وے پر چھوڑ دیا۔
یہ واقعہ 28 مارچ 2025 کو رات ساڑھے دس بجے کے قریب پیش آیا تھا اور پولیس نے اس واردات کو سنگین نوعیت کا معاملہ سمجھتے ہوئے فوری طور پر اغوا اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس واردات میں پولیس اہلکاروں سمیت 12 ملزمان ملوث ہیں، جن میں شاہ لطیف تھانے کے چار پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
مدعی سرفراز نے ان پولیس اہلکاروں امام بخش، شکیل، افتخار اور خاور کو اپنے اغوا کاروں کے طور پر شناخت کیا ہے، جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس سنگین واردات کو انجام دیا۔ اس کے بعد مقدمے کی مزید تفتیش اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (AVCC) کے حوالے کی گئی ہے، تاکہ اس جرم کی مکمل تحقیقات کی جا سکیں اور ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔
پولیس کی ساکھ پر سوالیہ نشان
یہ واقعہ نہ صرف شہر کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے اس نوعیت کے سنگین جرائم کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جا رہے، اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پولیس کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس واقعے نے شہریوں میں مزید خوف و ہراس پیدا کیا ہے اور انہوں نے پولیس کے خلاف اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
یہ واقعہ کراچی کی شہری زندگی کے لیے ایک سنگین دھچکا ثابت ہو سکتا ہے، جس میں پولیس کے اہلکاروں کی جانب سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اگر اس معاملے میں انصاف کا حصول ممکن نہ ہو تو اس سے شہریوں کا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اعتماد مزید کم ہو جائے گا۔