پاکستان کے نوجوان اسکواش اسٹار نور زمان نے انڈر 23 ورلڈ اسکواش چیمپیئن شپ جیت کر پاکستان کو ایک بار پھر عالمی سطح پر سرخرو کر دیا۔ نور زمان نے اپنے عزم، محنت اور خاندانی ورثے کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ تاریخی کامیابی حاصل کی، لیکن افسوس کے ساتھ کہا کہ ملک کے اعلیٰ ترین حکام نے محض مبارکباد تک محدود ہو کر ان سے ملاقات کی زحمت نہیں کی۔
ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات میں پیش رفت اور خدشات— آیت اللہ خامنہ ای کا محتاط اطمینان
ڈی این اسپورٹس کے معروف پروگرام ’ری پلے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے نور زمان نے کہا کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہے جس نے اُسے پاکستان کو دوبارہ ورلڈ چیمپیئن بنانے کا موقع دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کامیابی میں ان کے اہل خانہ، کوچز اور خاص طور پر دادا قمر زمان کی کاوشیں شامل ہیں، جو خود اسکواش کے مایہ ناز کھلاڑی رہ چکے ہیں۔
نور زمان نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس چیمپیئن شپ کے پاکستان میں انعقاد کو تین دہائیاں گزر چکی تھیں اور اس موقع پر پوری دنیا کی نظریں اُن پر تھیں، لیکن اُن کا دھیان صرف اپنے کھیل پر مرکوز رہا اور انہوں نے بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کیا۔
اس موقع پر نور زمان نے کہا کہ اسکواش اُن کا خاندانی کھیل ضرور ہے، لیکن لوگ اُن کی ذاتی محنت اور قربانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بچپن میں اُنہیں کھیل کا شوق نہیں تھا، لیکن دادا قمر زمان کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد ان کی دلچسپی پیدا ہوئی اور وہ دو بار ایشین جونیئر چیمپیئن بنے۔ بعد ازاں ایشین گیمز میں سلور میڈل جیتا اور اب عالمی چیمپیئن شپ کا تاج بھی اُن کے سر سجا۔
ذہنی اور جسمانی فٹنس پر بات کرتے ہوئے نور زمان نے تسلیم کیا کہ پہلے وہ دباؤ میں آ کر ہار مان لیتے تھے، مگر پچھلے چند مہینوں میں انہوں نے بھرپور محنت کر کے اپنی ذہنی و جسمانی طاقت میں اضافہ کیا اور یہی ان کی کامیابی کی کنجی بنی۔
مستقبل کی منصوبہ بندی پر بات کرتے ہوئے نور زمان نے پرجوش انداز میں بتایا کہ انڈر 23 چیمپیئن بننے کے بعد اب انہیں اگلے ماہ شکاگو میں ہونے والی سینیئر ورلڈ اوپن اسکواش چیمپیئن شپ میں شرکت کا موقع ملا ہے اور ان کا اگلا ہدف سینیئر سطح پر بھی ورلڈ چیمپیئن بننا ہے۔
نور زمان نے کہا کہ اگرچہ صدر اور وزیراعظم نے اُنہیں مبارکباد دی ہے، لیکن ملاقات کے لیے نہیں بلایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہ صرف اُن کے لیے اہم ہے بلکہ یہ آنے والے نوجوانوں کو بھی تحریک دیتی ہے۔