اسرائیلی وزیر توانائی نے غزہ کو بجلی کی فراہمی فوری طور پر بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے، جس کے بعد غزہ پہلے سے جاری انسانی بحران کے ایک اور شدید مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔
دبئی میں آئی سی سی تقریب: پاکستان کو نظرانداز کیے جانے پر پی سی بی اور عوام سراپا احتجاج
الجزیرہ کے نمائندے کے مطابق، بجلی کی بندش کے باعث غزہ میں پانی کی فراہمی متاثر ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ پہلے ہی شدید بجلی کے بحران کا شکار تھا، اور جنوبی حصے میں قائم ڈی سیلینیشن پلانٹ ہی وہ واحد ذریعہ تھا جو شہریوں کو پانی فراہم کر رہا تھا۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی حکام کی جانب سے بجلی کی فراہمی منقطع کرنے کے بعد غزہ کا مرکزی ڈی سیلینیشن پلانٹ مجبوراً بند کر دیا گیا ہے۔
پلانٹ میں کام کرنے والے ایک انجینئر نے بتایا کہ یہ پلانٹ دیر البلح، خان یونس، رفح سمیت غزہ کے جنوبی علاقوں کے پانچ لاکھ سے زائد افراد کو پانی مہیا کر رہا تھا۔
البتہ، نمائندے نے وضاحت کی کہ اگرچہ پلانٹ میں ایندھن کا کچھ ذخیرہ اور سولر پینلز موجود ہیں، تاہم جنریٹرز کے ذریعے جو پانی صاف کیا جا رہا ہے، وہ علاقے کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
علاوہ ازیں، کریم ابو سالم (کریم شالوم) کراسنگ کی مسلسل بندش کی وجہ سے ایندھن، خوراک اور ادویات بھی نویں دن سے غزہ میں داخل نہیں ہو پا رہیں، جس سے بحران مزید سنگین ہو چکا ہے۔
حماس نے اسرائیلی اقدام کو "گھٹیا اور ناقابل قبول بلیک میلنگ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فلسطینی جنگجوؤں پر دباؤ ڈالنا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن عزت الرشک نے کہا:
"ہم غزہ کو خوراک، ادویات، پانی سے محروم کرنے اور اب بجلی بند کرنے کے اس غاصبانہ فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔”
ادھر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطین فرانسسا البانیز نے بھی اسرائیلی اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا:
"غزہ میں بجلی بند کرنے کا مطلب ہے کہ ڈی سیلینیشن پلانٹس بھی کام نہیں کر سکتے، جس سے انسانیت سوز بحران پیدا ہو چکا ہے۔”
انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی پوسٹ میں "نسل کشی الرٹ” کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
"جو ممالک اب بھی اسرائیل پر پابندیاں نہیں لگا رہے اور اسلحے کی فراہمی بند نہیں کر رہے، وہ اس بدترین نسل کشی میں اسرائیل کے معاون ہیں۔”