حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان جاری مذاکراتی عمل میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی نے 28 جنوری کو ہونے والے مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے، جبکہ حکومت نے مذاکرات جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔
صبا قمر کا سوشل میڈیا سے وقتی کنارہ کشی کا اعلان، مداحوں کو تسلی دی
پی ٹی آئی کا مؤقف:
پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کو صرف فوٹو سیشن کے بجائے حقیقی پیش رفت کی طرف لے جانا چاہتے تھے، تاہم حکومت کی جانب سے کوئی واضح عمل سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے دو مطالبات تھے:
جوڈیشل کمیشن کا قیام
نیوٹرل ایمپائر کی تعیناتی
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ حکومت نے ان مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے تحریری یقین دہانی نہیں دی، جس کے باعث پی ٹی آئی نے مزید اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کا ردعمل:
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکراتی عمل کسی کھیل کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 28 جنوری کو اجلاس کی تاریخ طے کی گئی تھی، اور پی ٹی آئی کو اس میں شریک ہونا چاہیے۔ عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ حکومت نے مذاکرات ختم نہیں کیے، لیکن پی ٹی آئی کے رویے کی وجہ سے معاملات آگے نہیں بڑھ رہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کی کارروائی:
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس 28 جنوری کو دن پونے بارہ بجے طلب کیا ہے۔ یہ اجلاس ان کیمرہ ہوگا اور کمیٹی روم نمبر 5 میں منعقد ہوگا۔
تجزیہ:
مذاکراتی عمل میں یہ تعطل سیاسی منظرنامے میں مزید کشیدگی پیدا کر سکتا ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اعتماد کے فقدان کی وجہ سے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔