سپریم کورٹ میں توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت، ججز کمیٹی کے کردار پر بحث

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت کی۔
قومی اسمبلی میں پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 پیش، صحافیوں کا احتجاج

کیس کی سماعت:

عدالتی معاونین کی معاونت کے ساتھ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بھی اپنا مؤقف پیش کیا۔ دوران سماعت، مختلف ججز نے اس بات پر سوالات اٹھائے کہ آیا انتظامی کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کر کے کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کو انتظامی سائیڈ سے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ انتظامی آرڈر سے جوڈیشل حکم کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

ججز کمیٹی کا کردار:

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کر سکتی ہے؟ اور اس سے متعلق فل کورٹ میں کیس منتقل کیا جا سکتا ہے؟

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آئین کے مطابق صرف جوڈیشل آرڈر کو ہی جوڈیشل فورم پر ختم کیا جا سکتا ہے، نہ کہ انتظامی کمیٹی کی طرف سے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ اگر کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا تو یہ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہو گا۔

آئینی بینچ کی تشکیل:

عدالت نے اس بات پر بھی سوالات اٹھائے کہ کیا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی طاقتوں کو کم کر سکتی ہے؟

خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی آئینی بینچ تشکیل دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔

توہین عدالت کی کارروائی:

اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی محدود ہے، اور اگر یہ معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیجا جائے تو بہتر ہو گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فل کورٹ کے سامنے معاملہ بھیجا جا سکتا ہے تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔

عدالت کا فیصلہ:

بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

57 / 100

One thought on “سپریم کورٹ میں توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت، ججز کمیٹی کے کردار پر بحث

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!