سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بینچز کے اختیارات سے متعلق مقدمہ مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری تقریب میں شرکت کے لیے امریکہ پہنچ گئے
عدالت نے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہیں ہوا؟ رجسٹرار نے جواب دیا کہ یہ معاملہ آئینی بینچ کا تھا لیکن غلطی سے ریگولر بینچ میں لگ گیا تھا۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ غلطی تھی تو طویل عرصے سے کیوں جاری رہی؟ معذرت کے ساتھ، غلطی صرف یہ تھی کہ مجھے اس بینچ میں شامل کرنا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے اجلاس پر سوال اٹھاتے ہوئے دریافت کیا کہ کمیٹی کا اجلاس کیوں بلایا گیا اور اس کے اختیارات کیا تھے؟ رجسٹرار نے بتایا کہ انہوں نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا۔ عدالت نے کمیٹی کو بھیجے گئے نوٹ کا جائزہ لیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ نوٹ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے ججز کمیٹی کے اختیارات اور مقدمات واپس لینے کے عمل پر بھی سوالات کیے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا کام صرف مقدمات کے آغاز تک ہے، جبکہ زیر سماعت مقدمات میں مداخلت عدلیہ کی آزادی پر اثر ڈال سکتی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ مقدمات کا تعین عدالت کا کام ہے، کمیٹی یا ریسرچ سیل صرف مشورہ دے سکتا ہے۔ عدالت نے سینئر وکلا منیر اے ملک اور حامد خان کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم معاملے پر کل مزید سماعت ہوگی۔