تشکر نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ذوالفقار علی بھٹو کیس کے حوالے سے 5 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کے مقدمے میں ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ عدالت نے فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے، اور سیاسی دباؤ نے عدالتی آزادی کو متاثر کیا۔
ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل پر مشاورت ضروری، اگلے اجلاس تک مؤخر
اہم نکات:
فیئر ٹرائل کی خلاف ورزی:
جسٹس آفریدی نے افسوس ظاہر کیا کہ اس وقت کے سیاسی ماحول اور دباؤ نے انصاف کے عمل پر گہرے اثرات ڈالے۔
اختلافی فیصلوں کی اہمیت:
انہوں نے جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم، اور جسٹس جی صفدر شاہ کے جرات مندانہ اختلافات کو تسلیم کیا، جنہوں نے مشکل حالات میں حقائق پر مبنی رائے دی۔
بینچ کی تشکیل پر سوالات:
سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انکشافات اور بینچ میں مولوی مشتاق حسین کی شمولیت نے عدالتی غیرجانبداری پر سنگین خدشات پیدا کیے۔
عدالتی تاریخ کا افسوسناک باب:
جسٹس نسیم شاہ کے بیانات نے ظاہر کیا کہ مولوی مشتاق کی تعصب پر مبنی موجودگی نے مقدمے کی شفافیت کو نقصان پہنچایا۔
سپریم کورٹ کی ایڈوائزری حدود:
چیف جسٹس آفریدی نے کہا کہ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے مشاورتی دائرہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کے چند نکات سے اتفاق کیا گیا۔
پس منظر:
یہ ریفرنس سابق صدر آصف علی زرداری نے 2011 میں دائر کیا تھا، جس پر حالیہ سماعت 12 دسمبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوئی۔ ریفرنس میں ذوالفقار بھٹو کی سزائے موت سے متعلق پانچ بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں، جن میں ٹرائل کی شفافیت اور عدالتی فیصلے کے نتائج پر غور شامل ہے۔