ایک دور میں قومی سیاست میں اہم کنگ میکر سمجھی جانے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اب سیاسی شطرنج کی بساط پر محض حکومت کا ایک عام پیادہ بن کر رہ گئی ہے۔
لاہور: ’آئی کے 804‘ کی مبینہ جعلی نمبر پلیٹ کا کیس، ٹک ٹاکر مقدمے سے ڈسچارج
یہ ہم نے اس وقت دیکھا کہ جب آئینی ترمیمی پیکج کے گرد گھومتی سیاسی بحث میں ایم کیو ایم پاکستان کو کہیں شامل نہیں کیا گیا جس نے انہیں یہ کہنے پر مجبور کیا کہ انہیں ’اہمیت نہیں دی جارہی‘۔
رواں ماہ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی بنا پر متنازع آئینی ترامیم منظور کروانے میں ناکام رہی۔
اگرچہ حکومت نے دعویٰ کیا کہ اسے پاکستان پیپلز پارئی (پی پی پی)، ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ (ق)، استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی)، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، مسلم لیگ (ضیا)، نیشنل پارٹی اور چند آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود وہ ترامیم کرنے کے لیے درکار اکثریت حاصل نہیں کرپائے۔ حکومت نے بھرپور کوشش کی کہ وہ اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے ووٹ بھی حاصل کرلیں لیکن وہ ناکام رہے۔
ایک جانب پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منگل کو اپنی پارٹی کی آئینی عدالت کے قیام سے متعلقہ آئینی ترامیم کی پختہ حمایت کا اعلان کیا جبکہ دوسری جانب اے این پی کے سربراہ ایمل ولی نے گزشتہ روز اس بات کا عزم کیا کہ اگر خیبر پختونخوا کا نام تبدیل کرکے صرف ’پختونخوا‘ رکھا گیا تو وہ ترمیمی پیکج کی حمایت کریں گے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے چیئرمین اور وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی اس وقت نیویارک میں وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے موجود ہیں لیکن انہوں نے اس متنازع معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
اگرچہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹوں کی ضرورت نہیں تھی لیکن پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کے حصول کے لیے اسے ایم کیو ایم پاکستان کے 22 اراکینِ قومی اسمبلی اور 3 سینیٹرز کی حمایت کی ضرورت ہے۔
’اہمیت نہ ملنے‘ کا شکوہ کرنے والی ایم کیو ایم کو آئینی ترامیم کے معاملے میں بہتر ڈیل پر بات چیت میں ناکامی کے حوالے سے اپنے ووٹرز کے غصے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
تاہم مسلم لیگ (ن) نے اپنے مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج پر اپنی جونیئر اتحادی جماعت کو جتنی کم اہمیت دی، اس نے وسیع پیمانے پر پائے جانے والے اس گمان کو تقویت بخشی ہے کہ حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ پی پی پی کو بھی معلوم ہے کہ کراچی کی اس تنظیم کو طاقتور حلقے چلا رہے ہیں اور انہیں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ایم کیو ایم پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ کے ووٹوں کے لیے مذاکرات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے موجودہ اور سابق رہنماؤں سے گفتگو سے یہ بات سامنے آئی کہ مسلم لیگ (ن) نے دانستہ طور پر ایم کیو ایم پاکستان کو نظرانداز کیا اور انہیں مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج کے حوالے سے اعتماد نہیں لیا۔
15 ستمبر کو پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے کے چند گھنٹے قبل حکومت کو خیال آیا اور انہوں نے نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو ایم کیو ایم پاکستان سے بات چیت کرنے بھیجا تاکہ پارٹی کو مزید ہرزہ سرائی سے بچایا جاسکے۔
رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان شاید حکومت کی ’سرد مہری‘ برداشت بھی کرلیتی لیکن دو مرکزی حکومتی جماعتوں کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ عوامی سطح پر جیسا اعلیٰ سلوک اختیار کیا گیا، اس نے معاملات کو مزید خراب کیا۔
ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کو 14 اور 15 ستمبر کی درمیانی شب پارٹی کے اندر اور باہر دونوں جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جو اس وقت شدت اختیار کرگیا کہ جب پارٹی کے اراکین نے کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر ہی مسلم لیگ (ن) کی غیرمشروط حمایت کرنے کے پارٹی کے فیصلے پر سوال اٹھائے۔
پارٹی کے اندر ہی سے اظہار ناراضی کے بعد سے ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں انگریزی کے اس مقالے کے ذریعے شکایت کی کہ ان کی جماعت کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ’ٹیکن فار گرانٹڈ‘ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے ایم کیو ایم کے اراکین سے ملاقات کے لیے وفد بھی اس وقت بھیجا کہ جب ’ایم کیو ایم پاکستان نے توجہ دلائی‘۔
ڈاکٹر فاروق ستار کی قومی اسمبلی کی تقریر کا ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوگیا جس نے پارٹی رہنماؤں کو ٹیگ کرنے والے صارفین کی جانب سے میمز اور سوالات کی بوچھاڑ شروع کردی گئی اور ان سے پوچھا گیا کہ انہیں مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے آخر کیا فائدہ حاصل ہوا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے ایک سینئر رہنما نے کہا، ’ہمارے لیے اس تاثر کو دور کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے کہ بعض حلقے ہماری ہر حرکت کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بھی شاید یہی سوچتی ہے کہ ہمیں ’مینج‘ کیا جارہا ہے‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو ایم کیو ایم پی کو مسلم لیگ (ن) سے اپنے ووٹرز کے لیے ترقیاتی پیکجز یا کچھ اور مانگنے سے روک رہی ہیں تو اس پر ایک سینئر رہنما نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا، ’ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کی قیادت کی ترجیحی فہرست میں نہیں ہے، وہ صرف مزید وزارتیں چاہتے ہیں‘۔
ایم کیو ایم پاکستان کی سینئر رہنما نسرین جلیل نے کہا کہ، ’جو فاروق ستار نے کہا معاملہ یہی ہے۔ ہمیں احساس ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے پاس حکومت بنانے کے لیے درکار نمبرز موجود ہیں۔۔۔ اور کیونکہ ایم کیو ایم، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت نہیں کرے گی اس لیے اس کے پاس مسلم لیگ (ن) کو سپورٹ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ چنانچہ ہماری جماعت کو اہمیت نہیں دی جاتی‘۔
سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ایسی جماعت کے زوال کے حوالے سے کافی ناخوش ہیں جس کے وہ سرگرم رہنما رہ چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’جب ڈاکٹر فاروق ستار نے خود ہی قومی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم پاکستان کو اہمیت نہیں دیتی، تو اس سے زیادہ اب کیا کہا جاسکتا ہے‘۔
ان کے خیال میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے دکھائی جانے والی ’سرد مہری‘ کی بنیادی وجہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد حکومت کا حصہ بننے کی ایم کیو ایم پاکستان کی جلد بازی ہے۔ عشرت العباد کہتے ہیں، ’انہوں (ن لیگ) نے دیکھ لیا کہ وہ کتنے مایوس ہیں کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں اور اب وہ ایم کیو ایم کے ساتھ اسی کے مطابق سلوک اپنا رہے ہیں‘۔
ان کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے مجوزہ آئینی پیکج میں بااختیار مقامی حکومت کی شق شامل کرنے کا موقع گنوا دیا۔ انہوں نے تشکر کو بتایا کہ ’اس سے ایم کیو ایم پاکستان اپنے ووٹرز کو بتا پاتی کہ اس نے اپنے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدے کو پورا کیا‘۔
تاہم ڈاکٹر عشرت العباد کا خیال ہے کہ چونکہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی اب بھی آئینی ترمیمی بل کے لیے اتفاق رائے کی متلاشی ہے، ایسے میں ایم کیو ایم کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع اب بھی موجود ہے۔ وہ افسوس کے ساتھ کہتے ہیں، ’بدقسمتی سے ایم کیو ایم پاکستان میں، میں کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھتا جو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت رکھتا ہو‘۔
متحدہ قومی موومنٹ کے سابق کنوینر ڈاکٹر ندیم نصرت جو اب واشنگٹن میں قائم وائس آف کراچی گروپ کے سربراہ ہیں، انہوں نے بھی ایم کیو ایم پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سردار اختر مینگل اور مولانا فضل الرحمٰن نے ’ایم کیو ایم پاکستان سے کم نشستیں ہونے کے باوجود زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں جو ایم کیو ایم قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو درجن سے زائد اراکین کے ساتھ بھی حاصل نہیں کرپائی‘۔
وہ کہتے ہیں، ’میں کچھ عرصے سے ایم کیو ایم پاکستان کی مسلسل ناکامیوں پر تنقید کرنے سے خود کو روک رہا ہوں لیکن اب حالات قابو سے باہر ہورہے ہیں۔ پارٹی کو گزشتہ دو حکومتوں میں وزارتیں حاصل تھیں جبکہ وہ موجودہ حکومت کی بھی اتحادی ہے۔ اس کے باوجود وہ شہری سندھ کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام ہے‘۔
ڈاکٹر فاروق ستار کے ’ٹیکن فار گرانٹڈ‘ تبصرے سے متعلق ندیم نصرت نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان وفاقی حکومت کی اتحادی تھی جبکہ اسے کابینہ میں وزارتیں بھی حاصل ہیں۔
ندیم نصرت کہتے ہیں، ’ان کی قیادت کو یہ مسائل لازمی طور پر وزیراعظم کے سامنے اٹھانے چاہئیں۔ اگر حکومت ان کے مطالبات کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے تو پارٹی کو باعزت طور پر حکومت سے علحیدگی اختیار کرلینی چاہیے۔ مجھے ان کے کچھ بیانات یاد ہیں کہ جن میں انہوں نے حکومت سے علحیدگی کا ذکر کیا۔ میرے خیال سے اب وقت ہے کہ وہ ان خیالات پر سنجیدگی سے غور کریں‘۔
اب جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے آئینی ترمیمی پیکج کو منظور کروانے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے، بہ ظاہر ایم کیو ایم پاکستان خصوصی سیاسی مراعات لیے بغیر ہی اپنی حمایت دینے کے لیے تیار ہوجائے گی۔
ایم کیو ایم کے سابق ڈپٹی کنوینر ناصر جمال نے کہا، ’مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی دونوں کو ہی مجوزہ آئینی ترامیم پر کوئی اعتراض نہیں۔ اور متعدد وجوہات کی بنا پر ایم کیو ایم بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ ان ترامیم پر اعتراض کرے‘۔