پنجاب حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ صوبے میں 9 مئی کے فسادات کے بعد سے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت زیر حراست 4 ہزار 770 ’شرپسندوں‘ میں سے 3 ہزار 511 کو رہا کر دیا گیا ہے۔
تشکر اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف سیکریٹری کی جانب سے پیر کو دائر کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبے میں 4 ہزار 770 شرپسندوں کے خلاف 3 ہزار 232 نظر بندی کے احکامات جاری کیے گئے۔
سانحہ 9 مئی: ایم پی او کے تحت گرفتار 3 ہزار 511 افراد کو رہا کردیا گیا
اس میں کہا گیا ہے، 3 ہزار 511 قیدیوں کو ان کے نظر بندی کے احکامات واپس لینے کے بعد رہا کیا گیا۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے ایک درخواست کے جواب میں ایک رپورٹ پیش کی جس میں 9 مئی کے فسادات کے بعد ایم پی او کے تحت جاری یا واپس لیے گئے حراستی احکامات کا ریکارڈ طلب کیا گیا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما زینب عمیر کی جانب سے دائر درخواست میں صوبے کے ڈپٹی کمشنرز (ڈی سی) کی جانب سے اپنی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو حراست میں لینے کے اختیارات کے ناجائز استعمال کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
حکومتی قرضے گزشتہ 2 سال کے مجموعی قرضوں سے تجاوز کر گئے
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے ایم پی او آرڈیننس 1960 کے سیکشن 26 کے تحت اپنے اختیارات ڈپٹی کمشنرز کو 2017 میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تفویض کیے تھے تاکہ معقول پابندی کے ساتھ نظر بندی کے احکامات جاری کیے جائیں۔
درخواست گزار کے وکیل ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پی ٹی آئی کو نشانہ بنا رہی ہے کیونکہ حال ہی میں راولپنڈی میں چار نظر بندی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
جسٹس محمد امجد رفیق نے کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
درخواست گزار نے کہا تھا کہ حکومت نے 9 مئی کے واقعہ کے تناظر میں ایم پی او کے سیکشن 3 اور 16 کے تحت پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کے حراستی کے احکامات جاری کیے تھے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے کہنے پر ڈپٹی کمشنرز نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور درخواست گزار کی پارٹی سے وابستہ سیکڑوں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف بغیر کسی وجہ کے نظربندی کے احکامات جاری کیے۔
زینب عمیر نے سوال اٹھایا کہ اگر ان احکامات کا مقصد احتیاطی حراست ہے تو کارکنوں ، رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر چھاپے اور ان کی املاک کیؤؤو نقصان کیواں پہنچایا گیا؟
انہوں نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی دارالحکومت کے احاطے میں ایم پی او کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔