’وزارت خارجہ کی جگہ داخلہ نے کیوں شکایت درج کرائی؟‘ سائفر کیس میں سزا کےخلاف اپیل پر سماعت ملتوی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی، سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ وزارت خارجہ کی جگہ داخلہ نے کیوں شکایت درج کرائی؟

دان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے سلمان صفدر، عثمان ریاض گل و دیگر جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادرے (ایف آئی اے) پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی، نعیم اقبال و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے ہیں، کمرہ عدالت میں ملزمان کے خاندانی افراد سمیت پارٹی قیادت اور وکلا کی بڑی تعداد موجود ہے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت بڑی بڑی  تابیں آج آپ کے سامنے پڑی ہیں۔ بعد ازاں ایف آئی اے پراسیکوشن ٹیم سے حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ میں اپنے دلائل کا آغاز وہاں سے کروں گا جہاں سے سلمان صفدر نے ختم کیا تھا۔

چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے استفسارکیا کہ کیا یہ شکایت وزارتِ داخلہ نے درج کرائی تھی؟ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری سے ایف آئی اے میں انکوائری رجسٹر ہوئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ وزارتِ خارجہ کے بجائے وزارتِ داخلہ مدعی کیوں تھی؟بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اس نکتے پر بہت زور دیا ہے۔

پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ میں آگے چل کر اس متعلق عدالت کی معاونت کروں گا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ جو آڈیو لیکس آئی اس میں کون کون شامل تھے؟ حامد علی شاہ نے کہا کہ مبینہ آڈیو میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم خان تھے، ایف آئی اے نے اس آڈیو کو ایگزبٹ کرکے ہی رپورٹ کردی تھی، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ ان 4 افراد کی آڈیو ٹیپ کی رپورٹ ریکارڈ پر لایا، سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے آڈیو ٹیپ ملا جس میں سائفر پر گفتگو کررہے تھے، اس آڈیو میں کہا گیا کہ سائفر پر کھیلا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سلمان صفدر نے سوال اٹھایا تھا کہ وزارت خارجہ کی جگہ وزارت داخلہ نے کیوں شکایت درج کرائی؟ سائفر کا معاملہ تو وزارتِ خارجہ کا تھا، سلمان صفدر نے کہا تھا کہ ایف آئی اے نے کہا کہ ہم پہلے سے انکوائری کررہے تھے۔

پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ سیکریٹری داخلہ نسیم کھوکھر کی شکایت کے بعد انکوائری شروع کی گئی، 13 اکتوبر 2022 کو سیکریٹری داخلہ کی شکایت آئی تھی کہ مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کی جائیں، انکوائری میں معلوم ہوا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن فائیو کی خلاف ورزی کی گئی، سیکریٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی کی 25 ستمبر 2023 کو دوبارہ شکایت آئی، 15 اگست 2023 کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت سی ٹی ڈی کے تحت مقدمہ درج ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ 16 اگست 2023 کو ملزم عمران خان کو جوڈیشل کردیا گیا، 16 اگست 2023 سے کارروائی شروع ہوکر 30 جنوری 2024 کو اختتام پذیر ہوئی، اس میں دو دفعہ ٹرائل کو ریمانڈ بیک کیا گیا، شاہ محمود قریشی کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا، 3 اکتوبر 2023 کو کیس کا چالان جمع کیا گیا، دو دفعہ چارج کیا گیا، ایک دفعہ 23 اکتوبر اور دوسرا 13 دسمبر۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ نے 23 اکتوبر سے 13 دسمبر تک 2 دفعہ ریمانڈ بیک کیا؟ اس کیس کا نمبر کیا ہے؟

حامد علی شاہ نے بتایا کہ پہلے راؤنڈ میں 17 سماعتیں اور 3 گواہ کے بیانات قلمبند کرائے گیے تھے، وزارتِ قانون نے لاہور ہائی کورٹ رولز کے تحت جیل کو عدالت ڈکلیئر کیا تھا۔

حامد علی شاہ نے کہا کہ جیل ٹرائل، کیمرہ ٹرائل سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے ہیں، وفاقی حکومت کے ڈیفکٹڈ نوٹیفکیشن کی وجہ سے ریمانڈ بیک کیا گیا تھا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج کی تعیناتی اور ان کیمرہ سماعت سے متعلق نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا گیا تھا، حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ سر آپ بہتر بتا سکتے ہیں کیونکہ آپ نے کیس سنا تھا اور فیصلہ دیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یعنی جج کی تعیناتی کے لیے ایک بلینک نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا تھا اور اس نوٹیفکیشن کو پھر ریگولر کارروائی کے لیے استعمال کیا گیا؟

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ڈویژن بینچ کا فیصلہ اصل میں ٹرائل کے طریقہ کار سے متعلق تھا، 28 نومبر 2023 سے پھر ایک دوسرا راؤنڈ شروع ہوا، دوسرے راؤنڈ میں 19 سماعتیں اور دو گواہان کے بیانات قلمبند کرائے گئے۔

اس موقع پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 13 دسمبر کو دوسرے بار فرد جرم عائد ہوئی، اس کے بعد آگے کی کارروائی شروع ہوئی۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ 25 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے، 24 جنوری کو 4 گواہوں پر جرح مکمل ہوچکی تھی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلا کی غیر موجودگی کی وجہ سے سرکاری وکیل مقرر ہوئے۔

اس موقع میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وکالت نامے کن وکلا کے دیے گئے؟ کیس میں جنہوں نے جرح کی ان تمام وکلا کی سی ویز عدالت میں جمع کروا دیں۔

حامد علی شاہ نے کہا کہ 26 جنوری 2024 کو سرکاری وکیل مقرر کیے گئے ، 27 جنوری 2024 کو سرکاری وکیل نے جرح کی، 30 جنوری کو جرح مکمل ہوتی ہے اور 342 کا بیان ریکارڈ ہوتا ہے جن پر ملزمان دستخط نہیں کرتے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ 30 جنوری 2024 کو ٹرائل کورٹ نے سائفر کیس میں فیصلہ دیا۔

بعد ازاں جستس عامر فاروق نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ شاہ صاحب آپ دلائل کے لیے کتنا وقت لیں گے؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا، کوشش کروں گا کم وقت لوں۔

 

 

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریماکرس دیے کہ ہم نے سلمان صفدر کو وقت دیا تھا، آپ کو بھی دیں گے۔

11 / 100

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!