کراچی ٹائون پلاننگ سے محروم ملک کا سب سے بڑا شہر

ٹوٹی سڑکیں، بوسیدہ ٹرانزٹ سسٹم، دھواں چھوڑتی کھٹارہ گاڑیاں، ٹریفک کا اژدھام جہاں گرمی کی شدت میں اضافے کا سبب ہیں وہیں کنکریٹ کی بلند و بالا عمارتیں اور ٹائون پلاننگ نہ ہونا بھی موسمی تغیر کا سبب بن رہا ہے۔ ماہرین ماحولیات اور ٹائون پلانرز کے مطابق کراچی کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے، جہاں ٹائون پلاننگ ہی نہیں ہوتی، دنیا بھر میں گرین بلڈنگ اسٹینڈرڈز کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن یہاں جس کا جہاں دل چاہتا ہے عمارت کھڑی کرلیتا ہے۔

ٹائون پلانر اور اربن ڈیولپمنٹ ایکسپرٹ فرحان انوار نے اس ضمن میں بتایا کہ کراچی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا کوئی پلان نہیں ہے، ماضی میں ماسٹر پلان بنتے رہے ہیں اور آخری ماسٹر پلان سابق ناظم کراچی مصطفی کمال کے دور میں بنا تھا اور اس کا نام تبدیل کرکے اسے سٹی ڈیولپمنٹ پلان کردیا تھا۔

انہوں نے کہاکہ یہ شہر بے ڈھنگا بڑھتا چلا جارہا ہے اور اس سب کے نتیجے میں ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہورہے ہیں لیکن اس سب کیلئے ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے، ٹوئنٹی فور سیون اور سال کے 365 دن ڈیٹا جمع کرنا پڑتا ہے، لیکن جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ ماحول کو خراب کرنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی حدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہو، کوئی اسٹڈی یا ریسرچ نہ ہونے کی وجہ سے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ یہ ماحول کو کتنا متاثر کر رہا ہے۔

فرحان انوار نے مزید کہا کہ ہمارے ہاں کوئی گرین ہائوس گیس انوینٹری ہی نہیں ہے، دنیا کے بڑے شہروں کی سالانہ گرین ہائوس گیس انوینٹری بنتی ہے کہ سالانہ کتنا گرین ہائوس گیسز کا اخراج ہو رہا ہے، سندھ حکومت گرین لائن، ریڈ لائن اور ییلو لائن کے منصوبے لارہی ہے لیکن اس کے ساتھ شہر میں گاڑیاں بھی بھرتے جارہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ دنیا بھرمیں جب دوسرے موڈ آف ٹرانسپورٹ کی طرف جاتے ہیں تو آپ سڑکیں ایسی بناتے ہیں کہ لوگ پیدل چل سکیں، سائیکل چلا سکیں، آپ ایسے منصوبے بناتے ہیں کہ لوگ گاڑیوں کی حوصلہ شکنی کریں، ہمارے ہاں اس کا الٹا ہوتا ہے، ایک ریسرچ کے مطابق شہر میں روزانہ ایک ہزار گاڑیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ٹائون پلانر اور اربن ڈیولپمنٹ ایکسپرٹ نے کہا کہ ہمارے ہاں کوئی پلان نہیں ہے، ہمارے ہاں کوئی اسٹینڈرڈز نہیں کہ اتنی گرین اسپیس ہونی چاہئے، شہر میں کتنے اور کس طرح کے درخت ہونے چاہئیں، کوئی پلان کوئی پروجیکٹ نہیں ہے، ہمارے ہاں گھروں کی تعمیر ایسی ہے کہ روشن ہوتے ہیں اورنہ ہی ہوا دار، دن میں بھی لائٹس، پنکھے اور اے سی چلا رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اونچی عمارتوں نے ہوا کے قدرتی راستوں کو روک دیا ہے، دنیا بھر میں گرین بلڈنگ اسٹینڈرڈز آگئے ہیں، حتی کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں گرین بلڈنگ اسٹینڈرڈز کئی سال پہلے آگئے، انڈیا ان پرانی چیزوں کو واپس لانے کی کوشش کررہا ہے کہ گھر ایسے بنائیں گے دن میں بھی روشن اور ہوادار ہوں۔فرحان انوار نے بتایا کہ گرین بلڈنگ اسٹینڈرڈز میں گھر ایسے ڈیزائن کرتے ہیں کہ آپ کو بجلی کم سے کم استعمال کرنی پڑے، اے سی، پنکھے، لائٹس کم جلائیں، پانی کیسے کم استعمال ہو، انڈور ایئر کوالٹی کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں، حکومت پالسیز بناتی ہے، وژن دیتی ہے کہ شہر کو کیسا ہونا چاہئے، انوائرمینٹلی اسٹرانگ، ماحول دوست اور کلائمیٹ فرینڈلی شہر ہونا چاہئے، اس وژن میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ ملائیں، اس وژن کے مطابق پالیسیز بنیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی، ہماری سوچ بس پراجیکٹ بیس ہوتی ہے، جب تک پراجیکٹ بیسڈ اپروچ رہے گی کچھ بھی نہیں ہوگا، جب تک آپ ایک وژن اور پالیسی فریم ورک ڈیولپ نہیں کریں گے اس کیلئے ایک لانگ ٹرم سوچ کی ضرورت ہے، پولیٹیکل ول کی ضرورت ہے۔فرحان انوارنے مزیدکہاکہ بحیثیت شہری ایک شخص ٹرانسپورٹ ٹھیک نہیں کرسکتا لیکن اپنے محلے کو گرین تو کرسکتا ہے، وہ اپنے کچرے کو مینیج تو کرسکتا ہے، کچرے کو دوبارہ کیسے استعمال کر سکتے ہیں، ایک عام آدمی شہر کے گرین اسپیس کو بڑھا سکتا ہے، ظاہر درخت لگانے سے تو کوئی نہیں روکتا، کنزمپشن لیول کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے، روز نئے کپڑے خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ماحولیات اور موسمی تغیرات کے ماہر، ایکولوجسٹ رفیع الحق نے اس ضمن میں بتایا کہ گلوبل وارمنگ یا عالمی حدت میں اضافے کی وجوہات میں سب سے اہم گرین ہائوس گیسز کا اخراج ہے، گرین ہائوس گیسز میں 3، 4 گیسز شامل ہیں لیکن سب سے کلیدی کردار کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ کا ہے۔انہوں نے کہا کہ گرین ہائوس گیسز کا جو کل یومیہ ہے ٹوٹل گیسز کا 0.4 فیصد بنتا ہے، اس میں 4 فیصد کاربن ہے اور کاربن کی مقدار زیادہ ہے، اس لئے کاربن پر زیادہ فوکس کیا جاتا ہے، اس میں سلفر آکسائیڈ ہیں، نائٹروجن آکسائیڈ ہیں، یہ سب وہ گیسز ہیں جو ہمارے پولر کیپ میں سوراخ کا باعث بن رہی ہیں،کلائمٹ چینج یعنی موسمی تغیر کا سبب بن رہی ہیں۔

رفیع الحق نے کہاکہ ایک موسمی تبدیلی تو وہ ہے جو ہمارے پاس چار موسم ہیں، سردی، گرمی، بہار اور خزاں، ہمیں معلوم ہے کہ دسمبر میں موسم سرد ہوتا ہے اس لئے گرم کپڑے نکال لیتے ہیں اور جون، جولائی والے سیزن میں موسم گرم ہوتا ہے تو گرمی کی مناسبت سے نرم اور ہلکے کپڑے پہنے جاتے ہیں، اگر سردی اور گرمیوں کے موسموں میں تبدیلی آنا شروع ہوجائے تو اسے موسمی تبدیلی کہتے ہیں یہ ایک دم سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں وقت لگتا ہے، زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس تبدیلی میں انسانی رویوں کا بہت عمل دخل ہے، پہلے 60 فیصد دیہاتی آبادی اور 40 فیصد شہری آبادی تھی لیکن اب یہ الٹ ہوگیا ہے زیادہ تر لوگ شہروں میں آباد ہوگئے ہیں، ہم لوگوں نے اپنے بود باش تبدیل کرلئے ہیں، قدرت سے رابطہ کمزور کرلیا اور مصنوعی زندگی زیادہ گزار رہے ہیں، زندگی سہل بنانے کے چکر میں خود کو مشینوں کے تابع کرلیا ہے، پہلے انسانوں میں برداشت کی صلاحیت زیادہ تھی جو اب کم ہوگئی ہے، یہی برداشت کی صلاحیت بیماریوں سے لڑنے کا کام کرتی ہے۔

رفیع الحق نے کہاکہ کمرے میں اے سی لگا کر آرام دہ زندگی تو ہے لیکن صحتمند نہیں، صحتمند کب ہوگا جب آکسیجن کی مقدار ماحول میں 20 فیصد ہوگی، اس کی مثال ایسے لے لیں کہ امریکا کا بہترین ہیلتھ سسٹم ہے لیکن اس کے باوجود کرونا سے وہاں کتنی زیادہ اموات ہوئیں، ایسا کیوں ہوا اس لئے کہ وہاں زندگی پر آسائش لیکن قدرت کے نظام سے دور ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں کرونا وائرس سے اموات کی وجہ آبادی کا زیادہ ہونا ہے، دوسرا پھر ان کے کچھ عقائد کی وجہ سے بھی ہے یعنی جیسے وہ گائو متر پیتے ہیں، پہلے محلے اور گلیوں میں اکا دکا گاڑی ہوتی تھی لیکن اب گاڑیاں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ پارکنگ کیلئے جھگڑے ہوتے ہیں، پہلے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال ہوتی تھی، ماس ٹرانزٹ کا ایک سسٹم جیسا بھی تھا لیکن موجود تھا، وہ ختم ہوگیا، اس کی وجہ سے چنگچی اور موٹرسائیکل کی بھرمار ہوگئی، گاڑیاں پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئیں۔

ایکولوجسٹ رفیع الحق نے کہاکہ درخت ہم نے کاٹ کاٹ کر ختم کردیئے ہیں، گرمیوں کے سیزن میں ہمیں جوش چڑھتا ہے اور سب پلانٹیشن شروع کردیتے ہیں اور پھر اس کے بعد بھول جاتے ہیں کہ ان پودوں کو پانی کون دے گا، ان کی رکھوالی کون کرے گا، ذمہ دار کراچی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹز ہیں جنہوں نے شہر کو تباہ کرنے میں پورا کردار ادا کیا ہے، پہلے 240 اسکوائر یارڈ کے گھر میں 33 فیصد حصہ خالی چھوڑنا ہوتا تھا تاکہ گھر میں وینٹی لیشن (ہوا کا گزر) ہوسکے، لوگوں نے ناصرف وینٹی لیشن ختم کی بلکہ 5 فٹ آگے قبضہ کرلیا لیکن اتھارٹیز کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ فلیٹس بنتے جا رہے ہیں ہوا کے گزر کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا، اونچی اونچی عمارتیں بنتی جارہی ہیں، لوگوں سے گیس، بجلی اور طرح طرح کی این او سیز تو لی جاتی ہیں لیکن اس پر کوئی سوال نہیں ہوتا جو انسان کو آکسیجن کی ضرورت ہے، پر اسکوائر فٹ کے حساب سے اسے کہاں سے پورا کریں گے، ہمارے ہاں گرین اسپیس کا تصور صرف کاسمیٹک کردیا گیا ہے، اس پر سنجیدگی سے عمل کی ضرورت ہے، درخت نہیں کاٹنے چاہئیں لیکن اگر درخت کاٹنا مجبوری ہو تو اس کی جگہ پھر آپ کو 3 نئے درخت لگانے ہیں اور درخت لگا کر 3 سال تک اس کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے، اس کے بعد وہ خود نمو پانا شروع کردے گا۔

رفیع الحق نے کہاکہ ایک انسان کو اوسطا آٹھ درختوں کی آکسیجن درکار ہوتی ہے، یعنی 3 کروڑ کے شہر میں 24 کروڑ درخت ہونے چاہئیں، ہمارے ہاں صنعتی ترقی نہیں ہے اس لئے ہم 0.8 فیصد ماحولیاتی آلودگی میں حصہ ملا رہے ہیں، ہمیں سب سے پہلے بڑے شہروں میں ماس ٹرانزٹ سسٹم لانا چاہئے، کے سی آر پراجیکٹ سیاست کی نظر ہوگیا، گرین لائن بس میں ایک گھنٹے میں گنجائش 30 ہزار مسافروں کی ہے اور ٹرام کی 15 ہزار مسافروں کی، گرین گیسز کا کاربن امپیکٹ بھی کم ہے، اربنائزیشن کی وجہ سے ہوا میں نامناسب گیسوں کی مقدار بڑھ گئی، اس کے نتیجے میں لوگوں کو سانس اور آنکھوں کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔

ایکولوجسٹ نے مزید کہا کہ جس معاشرے میں سزا و جزا کا تصور ختم ہوجائے تو وہ معاشرہ بگاڑ کی طرف جاتا ہے اور یہی ہورہا ہے، جس شہر میں ہم رہتے ہیں یہاں انسانوں سے زیادہ کتے ہوگئے ہیں اور آپ انہیں اس لئے نہیں مار سکتے کہ یہ ایلیٹ کلاس کو برا لگتا ہے، ترجیحات کا مسئلہ ہے، چیل، کوے اور کتے کچرے پر پرورش پاتے ہیں، انسانوں نے اپنی طرح پرندوں کو بھی سہل پسندی کیلئے بنے بنائے گھونسلے دینا شروع کردیئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اب پورشن سسٹم شروع ہوگیا، پہلے جو گھر تھا اس کی ضرورت کے مطابق سیوریج سسٹم تھا، جب ایک فیملی کی جگہ 5 فیملیز اس گھر میں آبسیں گی تو نالے اوور فلو ہی ہوں گے، ہمیں ٹرانسپورٹ سسٹم بہتر کرنا ہوگا، اپنی بود و باش بہتر بنانی ہوگی اور رویے تبدیل کرنے ہوں گے۔ڈی آئی جی ٹریفک احمد نواز نے اس ضمن میں بتایا کہ 30 لاکھ گاڑیاں سالانہ رجسٹرڈ ہوتی ہیں، جس میں موٹر سائیکلیں اور ہیوی وہیکل سب شامل ہیں، ٹریفک کا سب سے زیادہ لوڈ ڈائون ٹائون میں ہے کیونکہ صدر یہاں ہے، لوگ شاپنگ کیلئے یہاں آتے ہں، دفاتر یہاں ہیں، کراچی میں ڈائون ٹائون سب ایک طرف ہے، باقی شہر 60 ڈگری پر ہے، اسی طرف 120 ڈگری پر سمندر ہے، نوکری اور شاپنگ کیلئے لوگ ڈائون ٹائون آتے بھی ہیں اور پھر واپس جاتے بھی ہیں، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

 

 

انہوں نے کہا کہ اسی طرح جب لوگ شہر سے باہر جاتے ہیں تو ناردرن بائی پاس، جناح برج، شارع پاکستان، سپر ہائی وے، پورٹ قاسم سے جتنا سامان نکلتا ہے، انڈسٹریل زون سے بڑی تعداد میں ملازمین کا آنا جانا ہوتا ہے یہ سب باقی کراچی کو بھی متاثر کردیتے ہیں، شہر اتنا پھیل گیا ہے کہ اب انڈسٹریل زونز شہر کے اندر ہیں، یہی شہر میں بے ہنگم ٹریفک جام کا سبب بنتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!