گذشتہ دنوں گوادر میں ہونے والے ناکام حملے نے مسنگ پرسنز کا ڈرامہ ایک بار پھر بےنقاب کر دیا۔ گوادر میں ہلاک ہونے والے آٹھ دہشتگردوں میں سے دو کی شناخت کریم جان ولد فضل بلوچ اور دوسرا امتیاز احمد ولد رضا محمد ہوئی ہے۔ یہ دونوں دہشتگرد بھی مسنگ پرسنز لسٹ کا حصہ نکلے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جس میں مسنگ پرسنز ملوث پائے گئے ہیں بلکہ ماضی میں مچھ حملے میں بھی یہی مسنگ پرسن شامل تھے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی کچھ نام نہاد نمایاں شخصیات بیرونی ایجینسیوں سے پیسے لے کر فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاست کے خلاف الزام تراشی کرنے میں مصروف ہیں۔ تاثر یہی آتا ہے کہ مسنگ پرسن کے موضوع کو زندہ رکھنے سے ہی ان کی روزی روٹی ہے۔ کچھ نام نہاد فلاحی ادارے بھی اپنی دکان مسنگ پرسنز کے نام پر چمکا رہے ہیں۔
معتدد بار ان کو حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی جاتی ہے پر یہ پھر بھی جھوٹ کا سہارا لینے سے نہیں رکتے۔ایسا نہیں ہے کہ ان کی شنوائی نہیں کی گئی اس معاملے کی تحقیقات کیلئے حکومت نے عدالتی کمیشن بھی تشکیل دیا جس نے غیر جانبدار انکوائری کی۔ کمیشن کو مہیا کردہ ڈیٹا کے مطابق دس ہزار اٹھہتر (10078) لوگ مسنگ پرسن کی لسٹ میں شامل تھے، جن میں سے سات ہزار سات سو اکیاسی (7781) بازیاب ہو چکے ہیں جبکہ ا ہزار چار سو ستتر(1477) اغوا برائے تاوان اور گھر سے بھاگے ہوئے ہیں۔ باقی رہہ گئے آٹھ سو بیس (820)۔ ان آٹھ سو یس (820) مسنگ پرسنز میں سے نناوے فیصد لوگ وہ ہیں جنہوں نے بی آر اے، بی ایل اے اور ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ جو فرد ان دہشتگرد تنظیموں کا حصہ بنتا جاتا ہے ساتھ ساتھ اس کا نام مسنگ پرسنز کی لسٹ میں شامل ہوتا جاتا ہے اور ریاست اور ریاستی اداروں کو بدنام کیا جاتا ہے۔ جو نام نہاد دانشور اور فلاحی ادارے ان مسنگ پرسنز کیلئے آواز اٹھاتے ہیں وہ امریکہ کے پانچ لاکھ، برطانیہ کے ڈیڑھ لاکھ اور انڈیا کے تین لاکھ مسنگ پرسنز کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ جبکہ وہ خود کو بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کا علم بردار سمجھتے ہیں۔
اب کچھ روشنی ڈالتے ہیں مسنگ پرسنز کا لبادہ اوڑھے دہشت گردوں کی حقیقت پر۔ یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف دو ایسی دہشتگرد تنظیمیں ہیں جو کہ بھارتی خفیہ ایجینسی را کے زیرِ اثر ہیں۔ ان شدت پسند تنظیموں کے ہرکارے معصوم اور غریب بلوچ جوانوں اور بچوں کو ورغلا کر ریاستِ پاکستان کیخلاف استعمال کرتے ہیں۔ ان علیحدگی پسند بھارت نواز بلوچ تنظیموں کا طریقہ واردات انتہائی شاطرانہ اور مختلف ہے۔ یہ شدت پسند تنظیمیں بھارت کے فنڈز کا استعمال کرکے مظلومیت کا ڈرامہ کرتی ہیں، جھوٹی ظلم کی داستانیں سناتی ہیں اور جعلی خبریں پھیلاتی ہیں۔ یہ تنظیمیں بلوچوں کے گھروں سے بچے اغوا کرتے ہیں یا پھر ان کی معصومیت اور غربت کا فائدہ اٹھا کر ان کے بچوں کو خرید کر انہیں منظرِ عام سے غائب کرکے لاپتہ کردیتے ہیں۔ جب مسنگ پرسنز کی لسٹ ان کے ناموں سے اپڈیٹ ہوجاتی ہیں پھر ان افراد کو دہشتگردی پھیلانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا ثبوت مچھ جیل کا واقعہ، ایران میں دہشت گردوں کی ہلاکت، اور حالیہ گوادر حملہ جیسے واقعات میں ان نام نہاد لاپتہ افراد کا شامل ہونا ہے۔
ان کے طریقہ واردات کا حصہ یہ بھی ہے کہ اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کیلئے بچوں اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسی عورتوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اگر عورتوں اور بچوں کی اس ڈھال کو ہٹانے کی کوشش کی جاۓ تو شور ڈالتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ماہ رنگ بلوچ دہشتگردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے مسنگ پرسنز کو قبول کیوں نہیں کر رہیں۔ بہرحال اپنے مسنگ پرسنز کی تعداد چولہے کی لو کی طرح کم ذیادہ کرنے سے یہ لوگ انٹرنیشنل اداروں کی توجہ اپنی جانب وقتی طور پر مبذول تو کرسکتے ہیں لیکن یہ طریقہ ذیادہ دیر تک کارگر ثابت نہ ہوگا۔ اب بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی دہشتگرد تنظیموں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ ان کا یہ شو بھی فلاپ ہوگیا ہے اور ان حرکتوں سے ان کو باز رہنا چاہیے۔