16 دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جب مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلادیش بن گیا، اور یہ سانحہ ہر پاکستانی کے دل میں آج بھی ایک گہرے زخم کی مانند موجود ہے۔ بھارتی مداخلت اور سازشوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اہم کردار ادا کیا۔ اندرا گاندھی کے متکبرانہ الفاظ "میں نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا” نہ صرف پاکستان کے لیے زخم تھے بلکہ ایک متکبرانہ اعتراف بھی تھا۔
تاہم، تاریخ نے ثابت کیا کہ قوموں کے نظریات وقتی چیلنجز کے باوجود مٹائے نہیں جا سکتے۔ 6 اگست 2024 کو بنگلہ دیشی عوام نے بھارت نواز حکومت کا تختہ الٹ کر نئی تاریخ رقم کی، اور شیخ حسینہ واجد کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ اگر اندرا گاندھی آج زندہ ہوتیں تو یہ دیکھتیں کہ دو قومی نظریہ ایک بار پھر حقیقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔
غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت
سابق سیکرٹری خارجہ جوہر سلیم کی یہ بات درست ہے کہ قوموں کی زندگی میں فتح اور شکست مستقل نہیں ہوتی۔ یہ ضروری ہے کہ ہم سقوط ڈھاکہ جیسے سانحات کا تجزیہ کریں اور اپنی کوتاہیوں کا ادراک کرتے ہوئے آئندہ کے لیے سبق حاصل کریں۔ پاکستان کی داخلی تقسیم، سیاسی عدم استحکام، اور عوام کی محرومیوں نے مشرقی پاکستان کو بھارت کی سازشوں کے لیے آسان ہدف بنا دیا۔
16 دسمبر: ایک اور سانحے کی یاد
سقوط ڈھاکہ کے 43 سال بعد، 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے بہیمانہ حملے نے پاکستانیوں کے دلوں کو ایک بار پھر چھلنی کر دیا۔ دشمن نے اس روز معصوم بچوں کو شہید کر کے نہ صرف ملک کے مستقبل پر حملہ کیا بلکہ پاکستانی قوم کے زخموں کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کی۔
آج کا سبق
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قومی اتحاد اور مضبوطی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ دشمن قوتیں آج بھی ہمارے خلاف سرگرم ہیں، لیکن ماضی کے سبق اور قومی یکجہتی کے جذبے کے ساتھ ہم ہر چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اپنی کوتاہیوں کا ادراک، عوامی حقوق کا تحفظ، اور مضبوط قیادت ہی ہمیں مستقبل کے سانحات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔